1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے خلاف ’فیصلہ کن کارروائی‘ کی ضرورت ہے، ٹرمپ

عاطف توقیر
28 جنوری 2018

کابل میں گزشتہ روز ہوئے ایمبولنس بم حملے میں 95 افراد کی ہلاک پر اپنے سخت ردعمل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ طالبان کے خلاف ’فیصلہ کن کارروائی‘ نہایت ضروری ہے۔

https://p.dw.com/p/2reNH
Afghanistan Explosion in Kabul
تصویر: picture-alliance/dpa/Zumapress

گزشتہ روز کابل میں ہوئے اس حملے کو افغانستان میں حالیہ چند برسوں کے سب سے خون ریز واقعات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ اس واقعے درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اپنے سخت ردعمل میں امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’میں کابل میں ہوئے اس بھیانک کار بم حملے کی مذمت کرتا ہوں، جس میں درجنوں معصوم شہری ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ یہ بہیمانہ حملہ ہمارے اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ ہمیں اپنے افغان دوستوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔‘‘

کابل حملہ، ہلاکتوں کی تعداد تریسٹھ ہو گئی

افغانستان میں داعش کی کارروائی، اس بار نشانہ امدادی ادارہ

پاکستان: امریکی ڈرون حملے میں حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر ہلاک

صدر ٹرمپ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’اب، تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ طالبان اور اس دہشت گرد ڈھانچے کے مددگاروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں۔‘‘

افغانستان میں اکتوبر سن 2001ء میں امریکا نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نعرے کے ساتھ عسکری مداخلت کا آغاز کیا تھا، تاہم تب سے افغانستان شدید داخلی انتشار کا شکار ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا، ’’طالبان ظلم کر کے سرخ رُو نہیں ہوں گے۔‘‘

ٹرمپ نے مزید کہا، ’’امریکا اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ افغانستان کی سلامتی کے لیے اسے دہشت گردوں سے پاک کیا جائے گا،  ایک بیمار نظریے کے تحت ہمیں، ہمارے اتحادیوں یا اس نظریے سے اختلاف کرنے والے، دوسرے افراد کو ہدف بناتے ہیں۔‘‘

امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے بھی کابل بم حملے کی مذمت کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ہفتے کے روز دھماکا خیز مواد سے لدی ایک ایمبولنس کابل کے پرہجوم علاقے میں دھماکے سے اڑا دی گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد جائے حادثہ میں ہر طرف انسانی اعضا اور خون بکھرا ہوا تھا، جب کہ مقامی ہسپتالوں میں گنجائش سے زائد افراد کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس واقعے میں کم از کم 158 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

ٹلرسن نے کہا، ’’طالبان نے ایمبولنس کو بہ طور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے عام شہریوں کو نشانہ بنا کہ یہ پیغام دیا ہے کہ وہ انہیں افغانستان کے عوام سے کوئی سروکار نہیں اور وہ ان سے بھی جنگ کرنا چاہتے ہیں، جو افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں۔‘‘

ٹلرسن نے کہا کہ یہ حملہ بنیادی انسانی اقدار کی خلاف ورزی بھی ہے۔

’پاکستانی فوج کے سربراہ کا دورہ کابل بہت مثبت قدم تھا‘ معید یوسف

ان کا کہنا تھا، ’’ایسے تمام ممالک جو افغانستان میں امن کے خواہاں ہے، اس حملے کے بعد ان پر لازم ہے کہ وہ طالبان کی پرتشدد مہم کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کریں۔‘‘

ٹلرسن نے اپنے بیان میں کسی ملک کا نام تو نہیں لیا، تاہم واشنگٹن حکومت اس سے قبل پاکستان پر الزام عائد کرتی رہی ہے کہ وہ افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں کرنے والے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی معاونت کرتا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز پر امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ پاکستان کو اربوں ڈالر کی سکیورٹی امداد دی گئی، جس کے بدلے میں امریکا کو ’جھوٹ اور دھوکے‘ کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔