طالبان کے خلاف جنگ برسوں جاری رہ سکتی ہے!
22 دسمبر 2009امریکی چیف آف جنرل سٹاف مائیکل مولن چند روز پہلے اسلام آباد میں تھے۔ اپنے میزبانوں کے محتاط فوجی آپریشن کو بیان کرنے کے لئے اُنہوں نے بڑے نپے تُلے الفاظ کا انتخاب کیا اور کہا:’’اچھی منصوبہ بندی سے کیا گیا، خوب سوچا سمجھا اور مؤثر آپریشن ہے۔‘‘
ہمیشہ ایسا نہیں تھا کہ امریکہ نے پاکستانی کی فوجی سرگرمیوں یا پھر جمود کو یوں سراہا ہو۔ اِس سال کے اوائل میں، جب پاکستانیوں نے وادیء سوات میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ طے کیا اور اُنہوں نے دارالحکومت اسلام آباد کی جانب بڑھنا شروع کر دیا تو پوری مغربی دُنیا چیخ اُٹھی تھی۔ تاہم اُس کے بعد سے حالات بدل چکے ہیں۔ پہلے فوج نے انتہا پسندوں کو وادیء سوات سے نکالا اور اب قبائلی علاقوں کی باری ہے۔
پاکستانی شہر لاہور میں جرمنی کی ہائنرِش بوئیل فاؤنڈیشن کے انچارج گریگور اَیرنسٹ کہتے ہیں:’’پاکستانی فوج اپنی اِس کارروائی میں بہت سنجیدہ ہے، اُس نے جان لیا ہے کہ دشمن صرف ملک سے باہر ہی نہیں ہے بلکہ ملک کے اندر بھی ہے۔ فوج کی چوٹی کی قیادت بے حد سنجیدہ ہے۔‘‘
جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف حملے کا آغاز اکتوبر میں ہوا تھا اور تب سے فوجی دَستے مسلسل شمال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امورِ سلامتی کے ماہر اور ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود اِس آپریشن کو کامیاب قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج بڑی احتیاط سے اُن طالبان کو الگ کر رہی ہے، جن کے ساتھ اُسے لڑنا ہے:’’پاکستانی وہ کچھ کر رہے ہیں، جو اُنہیں ہر حال میں کرنا ہے، امریکہ کو مطمئن کرنے کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے لئے۔ کبھی کبھی یہاں مفادات کا ٹکراؤ بھی ہوتا ہے۔ پاکستان، افغان طالبان کے ساتھ لڑنے کی وہ ذمہ داری اپنے سَر نہیں لینا چاہتا، جو اصل میں امریکہ اور نیٹو پر عائد ہوتی ہے۔‘‘
پاکستانی عوام کو فوج کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے پر مجبور کرنے کے لئے طالبان نے شہروں کے وَسطی علاقوں میں بڑے پیمانے پر خونریز کارروائیاں کی ہیں۔ اِس کے باوجود غیر معمولی بات یہ ہے کہ عوام اِس فوجی آپریشن کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں:’’بے گناہ انسانوں کے خلاف تشدد کا اُلٹا نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ اِس سے فوج کا عزم مزید پختہ ہو گیا ہے اور عوام بھی انتہا پسندوں کی زیادہ سخت مخالفت کرنے لگے ہیں۔‘‘
دوسری طرف طالبان کی اپنی الگ ہی حکمتِ عملی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ اپنے خود کُش حملہ آوروں کو شہروں میں بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے تو ایک نہ ایک دن عوام یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ وہ اِس آپریشن کی اتنی بھاری قیمت ادا نہیں کر سکتے۔
جرمنی کی ہائنرِش بوئیل فاؤنڈیشن کے انچارج گریگور اَیرنسٹ کا بھی یہی خیال ہے کہ آپریشن کی عوامی حمایت شاید ہمیشہ اِسی طرح جاری نہ رہے:’’طالبان کے خلاف یہ جنگ کوئی چھ ماہ کی جنگ نہیں ہے۔ یہ برسوں جاری رہے گی، ویسے ہی، جیسے ہمیں مثلاً سری لنکا میں نظر آئی۔ پاکستانی معاشرہ اگر سنجیدہ ہے اور فوج کی حمایت کرنا چاہتا ہے تو اُسے خود کو کئی برسوں پر پھیلے ہوئے ایک خونریز تصادم کے لئے تیار رکھنا ہو گا۔‘‘
جیسا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے بھی بارہا ہو چکا ہے، اِس بار بھی سارا دار و مدار فوج پر ہے۔ صرف پاکستانی عوام ہی نہیں بلکہ مغربی دُنیا کی نظریں بھی آج کل پاکستانی فوج کی جانب اُٹھ رہی ہیں۔
ترجمہ : امجد علی
ادارت : شادی خان