1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

طالبان اقتدار پر قابض ہوئے تو امداد بند، جرمن وزیر خارجہ

12 اگست 2021

جرمنی نے کہا ہے کہ طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کی صورت میں کابل کی امداد بند کر دی جائے گی۔ امداد بند کرنے کا یہ بیان جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کی جانب سے سامنے آیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3ytq8
Afghanistan | Zwischen den Fronten | Taliban erobern Kundus
تصویر: Abdullah Sahil/AP/picture alliance

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ملکی نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر افغانستان میں طالبان اقتدار پر قبضہ کر لیتے ہیں تو اس ملک کی مالی امداد فوری طور پر بند کر دی جائے گی۔ جرمنی اس شورش زدہ ملک کو مالی امداد فراہم کرنے والا اہم ترین ملک ہے۔

مالی امداد بند کرنے کا انتباہ

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اپنے بیان میں کہا،''اگر طالبان اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ملک میں شرعی قوانین کو نافذ اور حکومت کو خلافت میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے تو ایک سینٹ کی امداد بھی ان کو نہیں دی جائے گی۔‘‘

جرمنی اور نیدر لینڈز نے افغان شہریوں کی ملک بدری معطل کر دی

ماس کے بقول طالبان یہ جانتے ہیں کہ بین الاقوامی امداد کے بغیر ان کے لیے ملک کا کاروبار حکومت چلانا بہت مشکل ہے۔ دوسری جانب اکتیس اگست کو افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہو جائے گا۔ تاہم جب سے ان فوجیوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوا ہے تب سے طالبان عسکریت پسند ملک کے مختلف حصوں پر کنٹرول حاصل کرتے جا رہے ہیں۔

Deutschland | Bundesaußenminister Heiko Maas
ہائیکو ماس کے بقول طالبان یہ جانتے ہیں کہ بین الاقوامی امداد کے بغیر ان کے لیے ملک کا کاروبار حکومت چلانا بہت مشکل ہےتصویر: Xander Heinl/photothek/picture alliance

جرمن امداد کا حجم

جرمنی سالانہ بنیادوں پر افغانستان کو چار سو تیس ملین یورو یا پانچ سو چار ملین ڈالر کی مالی امداد دیتا ہے۔ اتنی بڑی امداد کے ساتھ افغانستان کی امداد کرنے والا جرمنی سب سے بڑا ملک ہے۔

جرمن فوجی افغانستان میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی فورس میں شامل تھے۔ جرمن فوج قریب بیس برس تک افغانستان میں متعین رہی ہیں اور ان کی واپسی رواں برس جون میں ہوئی ہے۔

امریکا کے بغیر ممکن نہیں

جرمن وزیر خارجہ نے ٹی وی چینل زیڈ ڈی ایف کو بتایا کہ کوئی ملک افغانستان میں فوج نہیں بھیج سکتا اور نہ ہی یہ فوجی وہاں محفوظ رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے اس تناظر میں یہ بھی کہا کہ امریکا کے پاس ایسی صلاحیتیں موجود ہیں کہ وہ ایسا کوئی فوجی مشن بھیج سکتا ہے اور دوسرے ممالک اس سے فائدہ اٹھا کر ہی اپنے فوجیوں کی تعیناتی کر سکتے ہیں۔

’ملک بدری ختم کرنے کا فیصلہ جرمن حکومت کرے گی‘

جرمن حکومت نے موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے افغانستان میں موجود تمام جرمن شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس ملک کو فوری طور چھوڑ دیں یا محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں۔

جرمن فوجیوں کی مدد کرنے والوں کی منتقلی

اس دوران جرمن وزیر دفاع آنے گریٹ کرامپ کارین باؤر نے کہا ہے کہ افغانستان میں جرمن فوجیوں کے ساتھ کام کرنے والے مقامی افغان افراد کو جرمنی منتقل کیا جائے گا تا کہ وہ طالبان کے کسی ممکنہ جوابی اقدام یا شدید ردعمل سے محفوظ رہ سکیں۔

Katar, Doha | Friedensverhandlung zwischen dem Afghanischen Staat und den Taliban
دوحہ میں افغان مذاکرات کار عبد اللہ عبد اللہ اور طالبان مذاکرات کار ملا عبد الغنی برادر قطری سفارت کار کے ساتھتصویر: Karim Jaafar/AFP

انہوں نے یہ بھی کہا ان افراد کی منتقلی پر واضح کمٹمنٹ موجود ہے اور ان افراد کے نکلنے کے راستے سرِ دست مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔ اس دوران ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ افغان حکام ایسے شہریوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں دے رہے جن کے پاس ملکی پاسپورٹ نہیں ہیں۔ کرامپ کارین باؤر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی سفری دستاویزات کے بغیر افغان شہریوں کی ہوائی اڈے یا ہوائی جہاز تک رسائی قریب قریب ناممکن ہو چکی ہے۔

جرمنی نے افغانستان میں دوبارہ فوج بھیجنے کی تجویز مسترد کر دی

طالبان کو حکومت میں شمولیت کی دعوت

خلیجی ریاست قطر میں موجود افغان حکومت کے مذاکرات کاروں نے طالبان کو حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے تا کہ لڑائی اور تشدد کے سلسلے کو ختم کیا جا سکے۔ یہ بات نیوز ایجنسی اے ایف پی کو  کابل حکومت کے ایک مذاکرات کار نے بتائی ہے۔ اس مذاکرات کار نے پیشکش کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ ابھی طالبان کی جانب سے اس پیشکش کا جواب سامنے نہیں آیا ہے۔

ع ح/ ع ا (اے ایف پی)