1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کے خاتمے کا مطالبہ

10 اگست 2021

جرمنی میں پناہ گزینوں کی تنظیم نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان باشندوں کی ملک بدری کا سلسلہ ختم کر دیا جائے۔ تاہم جرمنی کے وائس چانسلر اولاف شُولس نے کہا ہے کہ اس بارے میں فیصلہ جرمن حکومت خود کرے گی۔

https://p.dw.com/p/3ynUO
Demo gegen geplante Abschiebung am Frankfurter Flughafen
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Prautsch

 

جرمنی میں پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم نے وفاقی جرمن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں پھنسے ہوئے امدادی کارکنوں کو جرمنی بلانے کے لیے زیادہ چارٹر طیارے بھیجے جائیں۔ اُدھر افغان باشندوں کی جرمنی سے ملک بدری ختم کرنے کے بارے میں نائب چانسلر اولاف شُلس نے کہا ہے کہ اس کا فیصلہ جرمن حکومت خود کرے گی اور سنگین جرائم میں ملوث افراد کو جرمنی میں رہنے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔‘‘

جرمنی میں پناہ گزینوں کی تنظیم '' پرو ازیول‘‘ نے وفاقی جرمن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں انتہائی خطرات سے دو چارسابق امدادی کارکنوں کو ہوائی جہاز کے ذریعے جلد سے جلد جرمنی پہنچانے کا بندوبست کرے۔ پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم '' پرو ازیول‘‘ کے مینیجنگ ڈائرکٹر گؤنٹر بورکہارڈ نے منگل کو اخبار 'رائنیشن پوسٹ‘ کو اس بارے میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا،'' کم از کم ایک ہزار کارکن افغانستان میں اب بھی موجود ہیں۔ ان کے انخلا کے لیے برلن حکومت کو فوری طور سے چارٹر ہوائی جہاز افغانستان بھیجنے چاہییں۔‘‘

افغانستان میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ

گؤنٹر بورکہارڈ نے مزید کہا،'' جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اپنے قول کو پورا کرنا ہوگا۔ ہمیں ان افراد کو افغانستان سے نکال کر محفوظ مقام تک پہنچانا ہوگا۔‘‘ انہوں نے یہ بیانات امریکی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کیا۔ واشنگٹن انتظامیہ اب تک متعدد سابق امریکی فوجی اہلکاروں اور مترجم کو طالبان کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کے خدشات کی بنا پر امریکا بلا چُکی ہے۔

Afghanistan | Zwischen den Fronten | Taliban erobern Kundus
افغانستان کی سکیورٹی کی صورتحال ابتر، افغان شہری در بدرتصویر: Hamed Sarfarazi/AP/picture alliance

 

 افغان باشندوں کی ملک بدری

جرمنی میں ایک طرف افغانستان سے سابق امدادی کارکنوں کو جرمنی بلانے کا موضوع سیاسی سطح پر زور و شور سے زیر بحث ہے اور اس بارے میں برلن حکومت پر خاصا دباؤ ہے دوسری جانب جرمنی سے افغان باشندوں کی ملک بدری کے بارے میں بھی مختلف حلقوں کی طرف سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ موضوع کافی حد تک جرمن سیاستدانوں کے درمیان رواں برس کے پارلیمانی انتخابات کی مہم میں بحث و مباحثے کا موضوع بنا ہوا ہے۔

 افغان باشندوں کی ملک بدری کو ختم کر دینے کے موضوع پر پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم '' پرو ازیول‘‘ کے مینیجنگ ڈائرکٹر گؤنٹر بورکہارڈ نے جرمن دفتر خارجہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ وفاقی جرمن حکومت کے مطابق اب تک تقریباً ایک ہزار سات سو مقامی مدد گار اور ان کے اہل خانہ جرمنی آ چُکے ہیں جبکہ جرمنی آنے کے حقدار مزید 24 سو افراد کے ویزے جاری کر دیے گئے ہیں۔ تاہم گؤنٹر بورکہارڈ کا کہنا ہے کہ جرمن وزارت خارجہ اب تک افغانستان میں ان امدادی ورکرز کی اصل صورتحال کا اصل اندازہ نہیں لگا پائی ہے۔ ان کا کہنا تھا،'' جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس افغانستان کی حقیقی وحشیانہ صورتحال سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔‘‘ گؤنٹر بورکہارڈ نے جرمنی سے افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کو فوری طور سے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

افغانستان: جنگ اب گلیوں اور سڑکوں تک پہنچ چکی ہے

BdT - Afghanistan
اندرون ملک بے گھر ہونے والے افغان باشندےتصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

جرمنی کے نائب چانسلر کا موقف

افغان باشندوں کی ملک بدری پر عام پابندی کے مطالبے کے جواب میں نائب چانسلر اور سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کے آئندہ چانسلرشپ کے امیدوار اولاف شُلس کا کہنا تھا،'' اس کا فیصلہ ہم کریں گے کہ کن افراد کو ملک بدر کیا جائے، سنگین جرائم کے مرتکب پناہ گزین ہمارے ہاں اور ہمارے ساتھ رہنے کی توقع نہیں کر سکتے۔‘‘ پناہ گزینوں کو کن ممالک واپس نہیں بھیجا جائے گا اس کا فیصلہ جرمن دفتر خارجہ کے پاس متعلقہ ممالک کی صورتحال کے بارے میں موجود رپورٹوں کی روشنی میں کیا جائے گا۔‘‘

ک م/ ع ح ( ڈی پی اے، کے این اے)