1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی اور جنوبی وزیرستان: چلغوزے کے باغات کی تباہی کی کہانی

سدرہ سعید
21 فروری 2021

گزشتہ دو دہائیوں سے میدان جنگ کا منظر پیش کرتے قبائلی علاقے شمالی اور جنوبی وزیرستان بلاشبہ کئی حوالوں سے اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں کی وادیاں خوبصورت بھی ہیں اور زرخیز بھی۔

https://p.dw.com/p/3pf1Z
DW Urdu Blogerin Sidra Saeed
تصویر: privat

چشموں کی موجودگی سے پانی بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ دونوں کی سرحد شوال کے علاقے سے افغانستان سے ملتی ہے۔ وزیرستان کے 90 فیصد باغات اور جنگلات خاص طور پر شوال کے حصے میں آتے ہیں۔ ان باغات میں صدیوں پرانے چلغوزے، اخروٹ، چیر اور دیار کے جنگلات بھی پائے جاتے ہیں۔

وزیرستان میں جنگلی زیتون بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ جنگلی زیتون شوال کے علاوہ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے علاقوں بدر، مکین، لدھا، رزمک، خوشحالی، شکتوئی، شکائی اور کڑمہ سمیت کئی علاقوں میں موجود ہیں۔ جنگلی زیتون کی اس علاقے میں بہتات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہاں زیتون کا کاروبار اور وزیر اعظم عمران خان کا وژن/ منصوبہ خوب پھلے پھولے گا۔ گزشتہ چار سال سے یہاں زیتون کی افزائش پر مختلف تجربات کئے گئے، جن میں نل کا تجربہ بھی شامل تھا، جس سے جنگلی زیتون کو مفید بنایا گیا۔ یہاں کی آب و ہوا بھی زیتون کے لیے فائدہ مند ہے۔ اگرچہ حکومت نے جنگلی زیتون کو فائدہ مند بنانے کا منصوبہ تو بنا لیا لیکن ان علاقوں کا قیمتی خزانہ چلغوزہ تباہی کے دہانے پر ہے۔

محکمہ جنگلات جنوبی وزیرستان کے مطابق جنوبی ایشیا میں چلغوزے کا سب سے بڑا باغ وزیرستان میں واقع ہے، جہاں سے ہر سال اربوں روپے کے چلغوزے اندرون اور بیرون ملک بھیجے جاتے ہیں۔ چلغوزہ جو کہ پاکستان کا سب سے مہنگا خشک پھل ہے کبھی ہماری مٹھی اور جیب میں بھرا ہوتا لیکن آج متوسط طبقے کی دسترس سے کوسوں دور ہے۔ اس کی ایک وجہ وزیرستان میں باغات کی تباہی ہے۔

نائن الیون کے بعد عسکریت پسندوں نے وزیرستان میں قدم جما لیے، جن کو پسپا کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کو ایک بڑا اور جامع آپریشن کرنا پڑا۔ قبائلی عوام نے سکیورٹی فورسز کا ساتھ دیا، اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے، کاروبار تباہ ہو گئے۔ عسکریت پسندوں کی آمد سے قبل وزیرستان میں چلغوزے کے باغات یہاں کے کاروباری لوگوں کا اہم ذریعہ معاش تھے۔ بمباری اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے جنگلات کی کٹائی سے چلغوزے کے باغات تباہ و برباد ہو گئے اور کٹائی کا یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ بچے کچے باغات سے حاصل معیاری چلغوزے باہر کے ممالک میں برآمد کردیے جاتے ہیں اور جو پاکستان کے حصے میں آتے ہیں ان کی قیمت ہی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ چلغوزے کا نام بدل کر 'ٹچ می ناٹ' رکھ دینا چاہیے۔

اب باقی بچ جانے والے باغات کو بھی مزید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی گوہر محسود کے مطابق بڑے پیمانے پر اب بھی دو سو سال پرانے قیمتی درختوں کو کاٹا جا رہا ہے، جس سے چلغوزے کے پہاڑی سلسلے متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیرستان میں کاروباری حضرات کے لیے بھی نئے اصول بنائے گئے ہیں، عام شخص تو چلغوزے کے جنگلات خرید ہی نہیں سکتا۔ چلغوزے کا کاروبار کرنے کے لیے انتظامیہ کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں موجود عسکریت پسند تنظیموں سے بھی اچھے مراسم کا ہونا ضروری ہیں۔ باغات کے مالکان کو اپنے ہی جنگلات اور باغات میں کام کرنے کا ان دونوں گروہوں کو کمیشن دینا پڑتا ہے، ورنہ یہ کام کرنے نہیں دیتے۔ دوسرا یہ کام انتہائی محنت طلب ہے، جس پر کافی اجرت لگتی ہے۔ ان تمام تر وجوہات کے باعث چلغوزے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔

کیا ہی اچھا ہو اگر وزیراعظم پاکستان زیتون کی افزائش کے ساتھ ساتھ چلغوزے کے باغات کو بھی محفوظ بنائیں تاکہ اس کی افادیت سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے۔ یہاں کے لوگوں کا اعتماد جیتنا بہت ضروری ہے اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ قبائلی آزادانہ اپنی زمینوں پر کام کرنے کا حق رکھیں۔ انہیں کسی کو اپنی زمین کا ناجائز کمیشن نہ دینا پڑے۔ اپنے ہاتھ سے لگائے جنگلات و باغات کے پھل پر انہی کا حق ہو، یہاں کے مقامی کاروبار کو فروغ دیا جائے۔ جو اذیت ان قبائلی پاکستانیوں کو آج تک اٹھانی پڑ رہی ہے، جو اضطراب ان میں پایا جاتا ہے، وہ ختم کیا جائے تاکہ اب مسحورکن سازوں پر امن رقص کرے، ہر چہرہ خوشی سے کھل اٹھے۔ تمام پہاڑ معدنیات سے بھرے پڑے ہیں، ان میں چھپے خزانے ملک و قوم کے کام میں لائے جائیں۔