1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کی صورتحال پر یورپی ممالک کی تشویش

7 ستمبر 2018

یورپی ممالک شام کی تازہ صورتحال پر شدید تشویش کا شکار ہیں۔ یہ ممالک اقوام متحدہ کے ذریعے فریقین پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں کہ شام میں فائر بندی معاہدے پر عمل درآمد جاری رہے۔

https://p.dw.com/p/34Sjg
Bildkombo: Hassan Rouhani, Vladimir Putin und Recep Tayyip Erdogan

سلامتی کونسل میں یورپی ممالک نے روس اور ایران سے مطالبہ کیا کہ آج جمعے کو تہران میں ہونے والے شامی مذاکرات میں جنگ بندی پر عمل درآمد کو یقینی بنانےکے موضوع پر بات چیت کی جائے۔

مشترکہ بیان

برطانیہ، فرانس، سویڈن، پولینڈ اور ہالینڈ کے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ شمال مغربی شامی صوبے ادلب میں فوجی کارروائی شہری آبادی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ جرمنی، بیلجیم اور اٹلی نے بھی اس دستاویز پر دستخط کیے ہیں۔

اسد حکومت صوبہ ادلب میں ایک بڑا آپریشن کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

Bildergalerie Straßenverkehr
تصویر: picture-alliance/AA/H. Muhtar

اس بیان میں مزید کہا گیا کہ  باغیوں کے گڑھ ادلب میں شامی حکومت کی کارروائی سے وہاں رہنے والے تیس لاکھ افراد کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے اور ان میں تقریباً دس لاکھ بچے ہیں، ’’دمشق حکومت اور اس جنگ کے دیگر فریقین کو مقامی آبادی کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے اور یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ انسانی بنیادوں پر کی جانے والی امداد کا راستہ بھی نہ روکا جائے۔‘‘

تہران میں ملاقات

جمعے کے دن دن شام کے موضوع پر دو اجلاس ہو رہے ہیں۔ تہران میں روس، ترکی اور ایران کے صدور مل رہے ہیں جبکہ سلامتی کونسل کے آٹھ یورپی ممالک کے نمائندے نیو یارک میں اس موضوع پر بحث کریں گے۔

حسن روحانی، ولادی میر پوٹن اور رجب طیب ایردوآن کی اس ملاقات میں یہ طے ہو گا کہ آیا سفارت کاری فوجی آپریشن کا راستہ روک سکتی ہے۔ تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان تینوں ممالک کے شام کے حوالے سے مفادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ روس اور ایران دمشق حکومت کا حامی ہے جبکہ ترکی اسد کے مخالف لڑنے والے باغیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

یونیسیف کی اپیل

اقوام  متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف نے شامی بچوں کے لیے ہنگامی امداد کی اپیل کی ہے۔ یونیسیف کے مطابق عالمی براداری کی جانب رقوم کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے اردن میں پناہ لیے ہوئے شامی بچوں کے تعلیم وتربیت کے مختلف منصوبوں میں بھی تعطّل کا امکان بڑھ گیا ہے۔ یونیسیف کے مطابق اگر یہ پروگرام بند کر دیے گئے تو اس طرح کم از کم ساٹھ ہزار بچے متاثر ہوں گے۔

ادلب کے شہری بدترین حالات کے لیے تیاریوں میں مصروف