1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شادیاں، وارث اور سونے کی بالیاں

8 نومبر 2021

کسی کی اولاد کے ہونے یا نہ ہونے سے لوگوں کو کیا لینا دینا۔ یہ سوال پوچھ پوچھ کر کسی کو اذیت میں ڈالا جاتا ہے؟ یہ معاشرے کی بے حسی کا ایک بہت ہی سنگین پہلو ہے۔ لوگوں کے بلاوجہ کے تبصروں سے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/42j38
تصویر: privat

ہاں بھئی! خوشخبری کب سنا رہی ہو؟ ابھی شادی کو بمشکل دوسرا ہی ہفتہ تھا کہ خواتین نے مجھے گھیر لیا۔ اتنے میں نند صاحبہ نے نیا شوشا داغا،''تم ہمیں وارث دو گی۔ تو ہم تمہیں سونے کی بالیاں دیں گے۔‘‘

آمنہ یہ بتاتے ہوئے مسکرائیں۔ کہنے لگیں پتا ہوتا کہ ان نند صاحبہ کا مجھے سونے کی بالیاں دینے کا ارادہ ہے تو ایک آدھ وارث میں جہیز میں ہی لے آتی۔ ہم تمام سہیلیاں اس کی اس بات پر زور سے ہنسیں۔ ہنستے ہنستے مجھے خیال آیا کہ جن باتوں کو ہم دوست اس وقت ہنسی میں اڑا رہے ہیں وہ اپنے اندر بلا کی سنگینی، معاشرے کی بے ثباتی اور ہولناکیاں لیے ہوئے ہیں۔ دفعتا میرا دھیان ایک جاننے والی کی طرف چلا گیا۔ ان کا نام پروین تھا۔ وہ بیاہ کر ہمارے ایک دور پرے کے رشتے دار کے گھر آئیں تھیں۔ پروین باجی کے ابا غالبا اپنے گاؤں میں گدھا گاڑی چلاتے تھے اور والدہ گدوں میں ڈورے ڈال کر اپنے گھر کی گزر بسر کرتیں تھیں۔ پروین باجی کو والدین زیادہ پڑھا لکھا تو نہ سکے لیکن وہ گھر کے کاموں میں بڑی طاق تھیں۔ اسی بل بوتے پر ان کی شادی بھی بظاہر ایک معاشی طور پر بہتر گھرانے میں ہوگئی۔

 ہائے بشری! مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ شادی کے وقت میری عمر کیا تھی۔ لیکن جب سے شادی ہوئی اس بات پر روز لعن طعن ہوتی ہے کہ میں ایک گدھا گاڑی والے کی بیٹی ہوں اور امیروں کے گھر رہنے کا مجھے سلیقہ نہیں۔ میری شوہر کی اولاد بھی میری ہی وجہ سے نہیں ہوئی اور اس گھر میں آئی ہر برائی کی ذمہ دار میں ہی ہوں۔ میں نے واقعی اس عورت کو کبھی خوش نہ دیکھا تھا۔ اس کی ساس سارا وقت یہی کہتی سنتی نظر آتیں تھی کہ میرے بیٹےکے یہاں اولاد نہ ہونے کی وجہ پروین ہے۔ یہ اپنا علاج کروا رہی ہے اگر اب اولاد نہ ہوئی تو میں اپنے بیٹے کی دوسری شادی کر دوں گی۔

ہم پروین باجی کی ساس کا یہ جملہ سن کر بچپن سے بڑے ہوگئے۔ نہ تو پروین باجی کے یہاں اولاد ہوئی نہ ہی ان کے شوہر کی دوسری شادی۔ ہاں البتہ ان کے گھر لڑائی جھگڑے بہت بڑھتے چلے گئے۔ ہر بار بقول ان کی ساس کے، قصور پروین باجی کا ہی ہوتا کیوں کہ وہ ایک گدھے گاڑی والے کی اولاد تھیں اور ان کو عزت راس نہیں آتی تھی۔

''جب تک اس کے سر پر میرا بیٹا جوتے نہ مارے اس کی عقل ٹھکانے نہیں آتی۔ یہاں پلنگ پر سوتی ہے۔ اس سے پوچھو اس کے باپ کے گھر میں پلنگ تھا؟ ان کے گھر میں تو گوشت تک میرا بیٹا خرید کر دے کر جاتا تھا اتنی بھی اوقات نہیں تھی اس کے باپ کی۔ ہر وقت کیچڑ میں لت پت گدھا گاڑی چلاتا ہے۔ بیٹی کو دیکھو کیسے ٹھاٹھ سے کراچی میں پنکھا چلا کر سوتی ہے۔ ایک اولاد نہ دے سکی ہم کو۔ اب اس کا دماغ دیکھو کیسے آسمان پر رہتا ہے۔‘‘

پروین باجی اکثر مار پیٹ کے بعد زخمی حالت میں ہمارے گھر آجاتیں اور والدہ سے گڑگڑاتیں کہ ان کا ڈاکٹری علاج کروادیں تاکہ ان کے یہاں اولاد ہو جائے۔ ایک دفعہ امی ان کو ایک ماہر ڈاکٹرنی کے پاس لے گئیں تھیں۔ ڈاکٹرنی کے مطابق پروین باجی میں ایسی کوئی کمی نہیں تھی کہ وہ ماں نہ بن سکیں۔ البتہ ڈاکٹرنی کی تاکید تھی کہ ان کے شوہر کو بھی ڈاکٹر کے پاس آنا چاہیے۔ اولاد کا حصول یک طرفہ معاملہ نہیں ہوتا یہ شوہر اور بیوی دونوں کی باہمی تولیدی صحت پر منحصر ہے۔

پروین باجی کی ساس کو جب اس بات کی بھنک پڑی تو انہوں نے اور ان کے بیٹے نے مار مار کر پروین باجی کا سر پھاڑ دیا اور ان کو واپس ان کے باپ کے گھر بھیج دیا۔ پھر اپنے آس پڑوس، رشتے دار اور شاید کہ ہر اس دختر نیک اختر کو جس کو وہ جانتی تھیں اپنے شریف، خوبصورت اور فرمانبردار بیٹے کا رشتہ دے دیا ۔ سب سے کھل کر پروین باجی کی برائیاں کرتیں تھیں کہ شاید سب کو یقین آجائے کہ ان کے گھر کی بربادی کی ذمہ دار فقط ان کی بہو ہی تھی۔ پروین باجی کے سر پر پڑنے والی ضرب عزب کے کچھ دن بعد ہم نےسنا کہ وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگی تھیں اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد ا ن کے انتقال کی خبر بھی آگئی۔ بقول ان کی ساس کے ان پر کسی غیر مرعی مخلوق کا سایہ تھا جو انہیں اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد ان کے بیٹے کی دوسری شادی بھی ہو گئی لیکن اولاد اس بیوی سے بھی نہ ہوئی۔ وہ بھی روز مار کھاتی ہے۔سنا ہے خالہ اب اپنے بیٹے کی تیسری شادی کے پر تول رہی ہیں۔

ہمارے شدید استفسار پر کہ آخر خالہ نے کبھی یہ کیوں نہیں سوچا بجائے شادی پر شادی کے وہ اپنے بیٹے کو علاج کے لیے آمادہ کیوں نہیں کرتیں؟ انہوں نے خونخوار نظروں سے مجھے گھورا اور ڈپٹ کر کہا " میرا بیٹا بالکل ٹھیک ہے۔ اس کو کسی علاج کی ضرورت نہیں، مسئلہ اس میں نہیں مسئلہ ان کمبخت عورتوں کے ساتھ ہے جن کوآج کل فیشن میں اولاد ہی نہیں چاہیے۔ " اس کے بعد تو شائد ان سے کرنے کے لیےکو ئی بات ہی نہ بچی۔

حیرانی اس چھ فٹ کے عقل کے اندھے پر ہوئی جو اپنی جاہل ماں کے پیچھے چھپ کر شادی پر شادی صرف اس لیے کر رہا تھا کہ اس کی ذات پر کوئی حرف نہ آئے اور وہ بہانہ بے بہانہ اپنی بیویوں پر اولاد نہ ہونے کے زمرے میں بیہمانہ تشدد پر تشدد کرتا ہی رہے گا۔ آخر کب کوئی ان لڑکوں کی ماؤں کو سمجھائے گا کہ اللہ کے کاموں میں انسانوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ چلیے یہ تو وہ لوگ ہیں جو بالواسطہ ایسے کاموں میں ملوث ہوتے ہیں ان لوگوں کا کیا جوشادی کے دوسرے دن سے لڑکی سے اولاد کب ہوگی اور وہ اپنا علاج کروا رہی ہے یا نہیں جیسے سوالات داغنا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی کی اولاد کے ہونے یا نہ ہونے سے لوگوں کو کیا لینا دینا ہوتا ہے یہ میرے آج تک سمجھ میں نہ آیا کیوں یہ سوال پوچھ پوچھ کر کسی کو اذیت میں ڈالا جاتا ہے؟ یہ ہمارے معاشرے کی بے حسی کا ایک بہت ہی سنگین پہلو ہے جس کو سوچ کر ہی مجھے جھر جھری سی آتی ہے۔

ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں یہ امر بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ہماری وجہ سے کوئی فرد تکلیف کا شکار نہ ہو۔ ہمارے بلاوجہ کے تذکرے اور تبصرے ہرگز بھی کسی بے اولاد جوڑے کے کام نہیں آتے بلکہ ان کی تکلیف میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی سی بھر پور کوشش کرنی چاہیے کہ فضول قسم کی گفتگو سے پرہیز کرکے لوگوں سے بات کریں۔ آمنہ کے جواب سے لے کر پروین باجی کی موت نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر ہم کب اپنے شعار بدلیں گے اور لوگوں کو سکھ سے جینے دیں گے؟