1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیکیورٹی خطرات بھی تنقید کی زد میں

1 اپریل 2022

تحریک انصاف کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ ان خطرات کے پیش نظر ان کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/49LNd
Pakistan Premierminister Imran Khan
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے آج اپنے ایک بیان میں کہا کہ انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق وزیر اعظم کی جان کو خطرہ ہے، اسی لیے ان کی سکیورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے۔

ناقدین کے خیال میں اگر وزیراعظم کی جان کو واقعی خطرہ ہے تو وہ اپنی سرگرمیاں محدود کرتے ہوئے عوامی اجتماعات سے خطاب کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اسی طرح مختلف تقاریب میں بھی جانے سے گریز کرنا چاہیے۔

عمران خان کو اپوزیشن کے بجائے اِن کاموں پر توجہ دینی چاہیے!

سکیورٹی ڈائیلاگ

واضح رہے کہ اسلام آباد میں آج وزیراعظم نے سکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کیا، جہاں انہوں نے روایتی طور پر اپنے ناقدین کو ہدف تنقید بنایا۔ آزادانہ خارجہ پالیسی کی بات کی اور افغان جہاد میں پاکستان کی شمولیت کے حوالے سے نقصانات کا تذکرہ کیا جبکہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستانی شمولیت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

 Imran Khan
تحریک انصاف کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیںتصویر: Saiyna Bashir/REUTERS

انہوں نے اس موقع پر ان سیاستدانوں کو بھی نہیں بخشا جو ان کے بقول یہ کہتے رہے ہیں کہ امریکہ کو ناراض نہ کریں وہ ایک طاقتور ملک ہے۔ انہوں نے امریکہ کا نام لیے بغیر کہا کہ جب میں نے روس کا دورہ کیا تو مجھے کہا گیا کہ ایک طاقتور ملک ناراض ہو جائے گا۔ انہوں نے مغرب کے دوہرے معیار کو بھی ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ انڈیا تمام تر پابندیوں کے باوجود روس سے تیل منگوا رہا ہے لیکن اس پر کوئی تنقید نہیں کی جا رہی اور برطانوی سیکریٹری نے کہا کہ انڈیا کو کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ ایک آزاد و خود مختار ملک ہے اور آزادانہ خارجہ پالیسی اپناتا ہے۔ وزیراعظم نے شرکاء سے سوال کیا تو پھر ہم کیا ہیں؟ کیا ہم ایک آزاد ملک نہیں ہیں؟

سکیورٹی خطرات کے حوالے سے سوالات

وزیراعظم کے ناقدین ان کو ان سیکورٹی خطرات کی اطلاعات پر بھی ہدف تنقید بنا رہے ہیں اور ان کے خیال میں اگر پی ٹی آئی کی حکومت اس کے ٹھوس ثبوت نہیں دیتی تو یہ بھی حکومت کی کئی غلط بیانیوں میں سے ایک سمجھا جائے گا۔

مسلم لیگ نون کے رہنما اور  سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس دعوے کے حوالے سے کئی اہم سوالات ہیں، جن کے جواب حکومت کو دینا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " اگر یہ خطرات ملک کے اندر سے آئے ہیں، تو وزیراعظم نے ابھی تک سیکیورٹی خطرات پیدا کرنے والے کے خلاف ایف آئی آر درج کیوں نہیں کرائی اور اگر یہ دھمکی کسی غیر ملک سے آئی ہے تو اقوام متحدہ یا کسی بھی بین الاقوامی فورم کا رخ کیوں نہیں کیا۔ صرف دعویٰ کرنے سے کام نہیں چلے گا۔‘‘

عمران خان کو انتہا پسندوں سے بھی خطرہ نہیں

پرویز رشید کا مزید کہنا تھا، "انتہا پسند عناصر کی طرف سے دوسری سیاسی رہنماؤں کو ضرور خطرہ ہے کیونکہ اب تو انتہا پسند عناصر کے پاس اپنی ایک ریاست بھی آ گئی ہے، لیکن عمران خان نے ہمیشہ ان انتہا پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کی ہے، ان کی وکالت کی ہے اور یہاں تک کہ ان کے دفاتر کھولنے کی بات کی ہے تو دوسرے سیاستدانوں کو تو ان انتہا پسند عناصر سے خطرہ ہو سکتا ہے لیکن عمران خان کو بظاہر ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘

Pakistan Premierminister Imran Khan
ناقدین کا خیال ہے کہ اگر وزیراعظم کی جان کو واقعی خطرہ ہے تو وہ اپنی سرگرمیاں محدود کریںتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

 نقل و حرکت محدود کریں

سکیورٹی ماہرین عمران خان کے مخالفین کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا اب بھی خطرہ ہے کیونکہ تحریک طالبان پاکستان نے گذشتہ کچھ برسوں میں، خاص طور پر پچھلے برس اپنے حملوں کو تیز کیا ہے جبکہ داعش نے بھی اپنی سرگرمیوں کو بڑھایا ہے۔

سکیورٹی امور کے ماہر اور سابق انسپکٹر جنرل سندھ افضل علی شگری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " یہ بات صحیح ہے کہ صورتحال دو ہزار آٹھ یا تیرہ، چودہ والی نہیں لیکن ٹی ٹی پی اب بھی سرگرم ہیں اور دہشت گردانہ حملے کر رہی ہے، اس کے علاوہ داعش بھی پاکستان کے سیکیورٹی مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے لہذا وزیراعظم کو اپنی نقل و حرکت کو محدود کرنی چاہئے، سکیورٹی بڑھائی جانی چاہیے اور انٹیلی جنس روابط کو بھی مضبوط کرنا چاہیے۔‘‘

عمران خان کا قوم سے خطاب: 'آخری دم تک مقابلہ کروں گا‘

 افضل علی شگری کے بقول دہشت گردوں کے پاس بھی ڈرون سمیت کئی نئے آلات آگئے ہیں جس سے وہ دہشت گردانہ کارروائیاں کر سکتے ہیں پھر شہروں میں ممکنہ طور پر اُن کے سلیپنگ سیلز بھی ہو سکتے ہیں جو ملک میں دہشت گردانہ کارروائی کر سکتے ہیں۔