1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سہ ملکی ریل لنک بحالی پر ترکی، ایران اور پاکستان متفق

15 جنوری 2021

پاکستانی، ترک اور ایرانی حکومتوں نے سرد خانے میں پڑے ریل لنک پراجیکٹ کو بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس سہ ملکی ریل منصوبے پر پہلی مرتبہ باہمی رضامندی سن 2009 میں سامنے آئی تھی۔

https://p.dw.com/p/3ny3x
Samjhauta Express Zug
تصویر: Getty Images/AFP/N. Nanu

ان تینوں ملکوں کے درمیان ممکنہ ریل لنک میں شامل استنبول، تہران اور اسلام آباد کے مقامات شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس ریل ٹریک کے استوار ہونے سے ان ملکوں کے درمیاں تجارت میں افزائش کے ساتھ ساتھ تینوں ملکوں کے سیاحوں کی آمد و رفت بھی توقع سے بڑھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نقل و حمل کا رابطہ تینوں ملکوں میں تعلقات کو بہتر خطوط پر استوار کرنے میں بھی کلیدی کردار کا حامل ہو سکے گا۔ڈھاکہ۔دہلی۔لاہور ریل لنک: پاکستان میں پیش رفت

ریل ٹریک کا حجم

اس ریلوے ٹریک کو مکمل کرنے پر اس کی کل لمبائی چھ ہزار پانچ سو کلومیٹر (چار ہزار تیس میل) ہو گی۔ اس طویل ٹریک میں ایک ہزار نو سو پچاس کلومیٹر کا ٹریک ترکی میں بچھایا جائے گا۔ ایران میں اس ٹریک کی لمبائی دو ہزار چھ سو کلو میٹر ہو گی جب کہ پاکستان میں ریلوے ٹریک ایک ہزار نو سو نوے کلو میٹر پر پھیلا ہو گا۔

Türkei Istanbul Karikoy Tunel 141 Straßenbahn
تینوں ملکوں کے درمیان ممکنہ ریل لنک میں شامل استنبول، تہران اور اسلام آباد کے مقامات شامل ہیںتصویر: Getty Images/C. McGrath

بظاہر اسلام آباد، استنبول اور تہران (آئی ٹی آئی پراجیکٹ) ریلوے پراجیکٹ چینی تعاون سے تعمیر کیے جانے والے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو‘  کا حصہ تو نہیں ہے لیکن انجام کار یہ اس میں شامل ہو سکتا ہے۔

بیجنگ کی آئی ٹی آئی پراجیکٹ میں شمولیت؟

اٹلانٹک کونسل کے شعبے جنوبی ایشیا سینٹر کی ایرانی تجزیہ کار فاطمہ امان کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ منصوبے پر چار سو بلین ڈالر سے زائد کی لاگت آ سکتی ہے۔ اس میں چین کو شامل کرنے سے اس بڑے منصوبے کو حقیقت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ امان کا کہنا ہے کہ ایران اس مناسبت سے چین کے ساتھ ڈیل کو حتمی شکل دے سکتا ہے۔

Changsha - Tehran: 1. Güterzug zwischen China nach Iran
ایران کے پاس بھی ملک میں وسیع ریلوے ٹریک ہے جو اس سہ ملکی لنک سے منسلک ہو سکتا ہےتصویر: picture alliance/dpa/Imaginechina/Z. Xin

ان کا کہنا ہے کہ یہ پراجیکٹ چین کے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو‘ کی طرز کا ہے اور بیجنگ حکومت خطے میں اپنی رابطہ کاری کو مزید وسعت دینے کے لیے اس پر مثبت انداز میں سوچ سکتی ہے۔

زیادہ رابطہ اور تجارتی آسانیاں

فاطمہ امان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ مکمل ہو جاتا ہے تو لوگوں کی نقل و حمل میں اضافے کے ساتھ ساتھ تینوں ملکوں کے تجارتی حجم میں غیر معمولی اضافے کا باعث بھی ہو گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ آپریشنل ہونے کی صورت میں سفر کا ایک بہتر اور محفوظ ذریعہ ثابت بن سکے گا۔ریلوے انجنوں کی درآمد، پاکستانی ٹیم بھارت میں

وارسا وار اسٹدیز اکیڈمی کے ریسرچر لوکاس پریزبائسیوسکی کا کہنا ہے کہ 'آئی ٹی آئی ریل لنک‘  ایک طویل مدتی پراجیکٹ ہے اور کئی سالوں میں مکمل ہو نے کا امکان ہے، طویل مدتی منصوبے بسا اوقات مزید تاخیر کا بھی شکار ہو جاتے ہیں لیکن ایک بار مکمل ہونے پر ان ممالک کے عام افراد اور مذہبی زائرین بھی ایک مقام سے دوسری منزل تک آسانی سے پہنچ سکیں گے۔

Zug Transportzug Türkei
سہ ملکی ریل لنک میں ترکی میں ٹرین ٹریک قریب دو ہزار کلو میٹر طویل ہو گاتصویر: Getty Images/M.Ozer

سکیورٹی خطرات

اسلام آباد میں مقیم تجزیہ کار ٹام حسین کا خیال ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل پر سامان بردار ریل گاڑیاں زیادہ روانہ ہو سکیں گی۔ اس کے علاوہ تعطل کے شکار گیس پائپ لائن منصوبوں کو مکمل کرنے کی کوئی صورت سامنے آ سکے گی اور اس خطے کے تعلقات بھی زیادہ بہتر ہو سکیں گے۔چین کا افغانستان میں بڑھتا ہوا کردار

انہوں نے دو اہم پہلوؤں کی جانب  اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ریل منصوبے کے راستے میں حائل سکیورٹی خطرات بہت زیادہ ہیں۔ اس کے لیے ایران پر عائد امریکی پابندیوں کو ختم کرنا اور اس کے علاوہ افغان جنگ کا خاتمہ بھی بہت لازمی ہے۔ حسین کے خیال میں یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہو گا اور اس کے لیے وسیع سرمایہ درکار ہو گا، جس کے لیے تینوں ممالک اپنی کوششوں سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات روشن کر سکتے ہیں۔

ہارون جنجوعہ (ع ح، ع آ)