1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سکھ برادری کا ایک اہم مطالبہ

من میت کور بلاگر
9 اکتوبر 2020

میں یہ تو نہیں کہتی کہ پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں، نہ ہی اس بات سے اتفاق کروں گی کہ صورتحال بہت تشویشناک ہے۔ تاہم کچھ امور پر تحفظات فطری ہیں۔ منمیت کور کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3jf3b
Pakistan | Bloggerin | Manmeet Kour
تصویر: privat

ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میرے چھوٹے بھائی کا پشاور ہائی کورٹ جانا ہوا۔ لیکن اسے داخلے سے روک دیا گیا اور کہا گیا کہ پہلے کرپان کو اتار جائے جس کے بعد ہی ہائی کورٹ میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ اس بات کو لگ بھگ ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ یہ واقعہ دماغ میں نقش ہو گیا۔ چند روز قبل ایک اخبار کا تراشہ میری نظر سے گزرا۔ جس میں واضح کیا گیا کہ خیبر پختونخوا کی ماتحت عدالتوں میں حفاظتی اقدامات کے پیش نظر کرپان ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ سکھ مذہب کے عقائد کے مطابق پانچ کک یا پانچ کے پر عمل پیرا ہو کر ہی گُرو کا پیارا بنا جا سکتا ہے اور امرت دھاری سردار کےروپ کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ پانچ کک یہ ہیں۔

نمبر ایک: کڑا

نمبر دو: کیس (بال)

نمبر تین: کچھا

نمبر چار: کنگھی

نمبر پانچ: کرپان (چاقو، تلوار)

کسی بھی سکھ کے لیے یہ پانچ کک یا پانچ کے بے حد ضروری ہیں۔ لیکن آج کل خیبر پختوانخوا میں کرپان کو ساتھ رکھنے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سکھ عقیدے کے مطابق کرپان حفاظت کی ضامن بھی ہوتی ہے اور خالصہ سکھ یا امرت دھاری روپ اس کرپان کے بغیر بے حد مشکل ہوتا ہے۔ تاہم ایئرپورٹ میں خاص کر کے جہاز میں سوار ہونے سے قبل اسے اتار لیا جاتا ہے۔

کرپان کے حوالے سے ہی مجھے اپنا پشاور سے کراچی بذریعہ ہوائی جہاز وہ سفر یاد آ رہا ہے کہ جب ایئر پورٹ میں ٹکٹ جاری ہونے کے بعد مجھ سے درخواست کی گئی کی بی بی اس کرپان کو اتار لیجیے اور اسے اپنے بیگ میں رکھ لیں۔ جس وقت مجھے یہ کہا گیا، میں ایک طویل قطار میں کھڑی تھی۔ میرے کرپان کو ایک پلاسٹک بیگ میں اچھی طرح لپیٹ کر میرے بیگ میں رکھ دیا گیا۔ چونکہ مجھے اکیلے سفر کرنا تھا اس لیے سوچوں کا پہرہ سا لگ گیا تھا۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھی کہ میرے ساتھ کھڑی خاتون نے مجھے مخاطب کیا اور استفسار کیا کہ میں نے یہ کرپان اپنے ساتھ کیوں رکھا؟ کیا ہر سکھ یہ کرپان ساتھ رکھتا ہے؟ آخر اسے کیوں پہنا جاتا ہے؟ اس طرح کے بے شمار سوالات پوچھے گئے۔ میں قطار میں تھی اور سوالوں کے جواب دے رہی تھی۔ لوگ مجھے بغور دیکھ رہے تھے، جیسے میں مریخ سے آئی ہوں۔ میں پریشان تھی۔ سوچ رہی تھی میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

سکھ اور مسلمان کیسے قریب آ گئے؟

کرتار پور، بابری مسجد اور افضل گرو

خیال رہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں سکھ برادری کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ کرپان کو نہ صرف بینکوں اور عدالتوں میں لے جا سکتے ہیں بلکہ وہ ہوائی سفر کے دوران بھی اسے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ مگر اس مقصد کے لیے وہاں ضابطے طے ہو چکے ہیں کہ کس سائز کے کرپان کو ساتھ رکھنے کی اجازت ہو گی تاکہ سکیورٹی کے حوالے سے کوئی خدشات یا خطرات پیدا نہ ہو سکیں۔ اور مذہبی اہمیت کی حامل یہ علامت کسے کے لیے کوئی خطرہ ثابت نہ ہو سکے۔
خیبر پختونخوا میں ایک اندازے کے مطابق 20 ہزار کے لگ بھگ سکھ آباد ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے سکھ جب امرت دھاری کے روپ کو اپناتے ہیں  تو اس کے لیے پرانے زمانے کے بڑے چاقوؤں کی نسبت اب چھوٹے چاقو رکھے جاتے ہیں، جس سے بظاہر کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ عرصے قبل میں نے رکن پنجاب اسمبلی رامیش سنگھ اروڑا سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ جلد کرپان کےمخصوص سائز کے حوالے سے قانون سازی کی کوشش کریں گے، تاکہ اس سلسلے میں امرت دھاری سرداروں کو پیش آنے والے مسائل کا ادراک ہو سکے۔ لیکن خیبر پختونخوا میں ایسا نہیں ہو رہا۔ ماتحت عدالتوں میں سکھوں کو کرپان ساتھ رکھنے کا معاملہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے جبکہ کچہری میں بھی کرپان ساتھ لے جانے پر پابندی عائد ہے۔ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی درخواست ہے کہ ان کے بھی مذہبی عقائد کا خیال رکھا جائے۔ اس ضمن میں مناسب قانون سازی کی جائے تاکہ وطن عزیز کی اس اہم اقلیتی برادری کی مذہبی رسومات جاری رہ سکیں اور کسی محرومی کا احساس نہ ہو۔