1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سلیکشن‘ ہو گئی تو پھر الیکشن مہم کیونکر؟

11 جنوری 2024

پاکستان میں الیکشن کو ایک ماہ سے بھی کم وقت کا عرصہ رہ گیا ہے لیکن دیگر شہروں سمیت زندہ دلان شہر لاہور میں بھی کوئی خاص سیاسی گہما گہمی دیکھائی نہیں دے رہی۔ کیا اس کی وجہ ’سلیکشن والے الیکشن‘ ہیں؟

https://p.dw.com/p/4b8db
Pakistan | Begrüßungsplakate für Nawaz Sharif in Rawalpindi
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

پاکستان کی بے جان انتخابی مہم میں اکا دکا آوازیں تو سنائی دے رہی ہیں جبکہ بینرز اور پوسٹرز بھی لگنا شروع ہو گئے ہیں لیکن ملک کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے زمین پر کسی قسم کی کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کی انتخابی مہم میں جوش و خروش نظر نہ آنے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں موسم کی سختی، دہشت گردانہ واقعات، عوام کی معاشی مشکلات، الیکشن کی غیر یقینی صورتحال اور ٹکٹوں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے پارٹیوں کے اندرونی اختلافات بھی شامل ہیں۔

قومی اسمبلی کی نشت پر الیکشن لڑنے والے پاکستان تحریک انصاف کے ایک روپوش رہنما نے ایک نامعلوم جگہ سے ڈی ڈبلیو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں غیر ضروری طور پر مقدمات میں الجھا دیا گیا ہے جبکہ انہیں اپنا نشان واپس لینے، اپنی اہلیت بحال کروانے اور لیول پلینگ فیلڈ حاصل کرنے کے لیے عدالتوں میں وقت دینا پڑ رہا ہے۔ ان کے بقول پاکستان تحریک انصاف اگر میدان میں جلسہ کرے تو گرفتاریاں ہوتی ہیں اور اگر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرے تو پورے ملک کا انٹرنیٹ سلو یا بند کر دیا جاتا ہے اس صورتحال میں کوئی کیسے الیکشن کی مہم چلا سکتا ہے۔

’کسی پر کوئی روک ٹوک نہیں‘

سینئر صحافی اور تجزیہ کار نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے الزامات درست نہیں ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں ایسے تمام لوگوں کو الیکشن میں حصہ لینے اور اور انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہے جو قانون شکنی کے مرتکب نہیں ہیں، ''جن لوگوں پر سنگین نوعیت کے مقدمات چل رہے ہوں ان کے لیے فری اینڈ فیئر انتخابی مہم کا حق مانگنا نا قابل فہم ہے۔‘‘

'سکیورٹی خدشات کے سبب انتخابات ملتوی نہیں کیے جائیں گے'، پاکستانی حکومت

پاکستان انتخابات: ایک امیدوار کا قتل دوسرا گولی لگنے سے زخمی

ڈاکٹر عاصم کہتے ہیں کہ دو ہزار آٹھ کے بعد سے خاص طور پر  اپنی مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے انتخابی مہم میں  'غیر متعلقہ مداخلت‘  دیکھی جا رہی ہے۔ مقدمات، پکڑ دھکڑ اور کسی خاص جماعت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی روایت کافی پرانی ہے، ''دو ہزار تیرہ میں بھی مرضی کی پارٹی کو ہی جتوایا گیا تھا۔  دو ہزار اٹھارہ میں بھی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے الیکشن عمل پر اثرانداز ہوا جاتا رہا ہے اور اب بھی کچھ تبدیلیوں کے ساتھ وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔‘‘

نواز شریف کی واپسی، پاکستان کے لیے خوشحالی کا ایک نیا دور؟

کیا کسی پر دروازے بند بھی ہیں؟

ڈاکٹر عاصم کے مطابق، ''انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کو اپنے ووٹرز تک اپنی بات پہنچانے اور انہیں اپنے پروگرام سے آگاہ کرنے اور ان کے اعتراضات کا جواب دینے کا موقع ملتا ہے اور اگر ہم یہ دروازے صرف ایک پارٹی کے لیے بند کر دیں گے تو پھر ووٹر وہی سنیں گے جو آپ سنانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ان کی ذہن سازی ہوگی۔ ہمارے ہاں خوف اور ہراسانی ایک ٹول کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے الیکشن سے جمہور کا جمہوریت پر اعتماد باقی نہیں رہتا۔ اس سے ملک ہی نہیں  بلکہ انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے والوں کو بھی نقصان ہوتا ہے۔ اور نظام نہیں چل پاتا۔‘‘

نوید چوہدری سمجھتے ہیں کہ ملک میں انتخابی مہم میں جوش و خروش پیدا نہ ہونے کی ذمہ دار پاکستان مسلم لیگ نون ہے جو ابھی تک میدان میں نہیں نکل سکی ہے۔ ''ہمیں توقع تھی کہ میاں نواز شریف وطن واپس آکر عوام سے رابطہ بڑھائیں گے اور سیاسی منظر نامے پر نظر آئیں گے لیکن  مسلم لیگی قیادت رائے ونڈ سے ماڈل ٹاؤن اور ماڈل ٹاؤن سے رائے ونڈ بند کمروں کے اجلاس جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘

نوید چوہدری نے مزید بتایا، ''ایک رائے یہ بھی ہے کہ میاں نواز شریف کو ملک میں واپس بلانے والوں نے کچھ ہفتے پہلے پلان بی پر غور شروع کر دیا تھا اس پر نواز شریف بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گھر بیٹھ گئے تھے اور اب ان کی نا اہلی ختم ہو گئی ہے، اس لیے انہوں نے پندرہ جنوری سے جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے۔‘‘

’الیکشن متنازعہ ترین ہوں گے‘

نوید چوہدری کے بقول جمعیت العلمائے اسلام ف نے پچھلے چند سالوں میں دھرنے دے کر اور لانگ مارچ کرکے بڑی محنت کی تھی اب ان کو 'حیرت انگیز‘ دہشت گردی کا سامنا ہے، ''لگتا ہے کہ ان کے بارے میں فیصلہ سازوں کا خیال ہے کہ فاٹا اور افغانستان میں سخت گیر عناصر کی موجودگی میں کہیں جے یو آئی کے پی میں زیادہ طاقتور نہ ہو جائے۔ اس لیے انہیں بھی محدود انتخابی مہم کی سہولت میسر ہے۔ اور وہاں پرویز خٹک کو زیادہ اہمیت ملنا شروع ہو گئی ہے۔‘‘

پاکستان الیکشن: ’نک دے کوکے‘ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے؟

سپریم کورٹ کا سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کالعدم قرار دینے کا فیصلہ

پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کا زیادہ فوکس سوشل میڈیا پر ہے۔ زیادہ تر جماعتیں نوجوان ووٹروں کو لبھانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ لیکن لیڈروں کی تقریریں اور بیانات ابھی تک الزامات اور جوابی الزامات لیے ہوئے ہیں۔ کسی جماعت کی طرف سے ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس پروگرام سامنے نہیں آیا۔

انتخابی امور پر نگاہ رکھنے والے فافن کے بانی اور غیر سرکاری تنظیم پتن کے سربراہ سرور باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس انتخابی مہم میں دیکھے جانے والے شواہد کی بنا پر بڑے اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ انتخابات انیس سو ستتر کے بعد سب سے متنازعہ انتخابات بن چکے ہیں اور کچھ پارٹیوں کا وفاق میں اور کچھ کا صوبوں میں راستہ روکنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور یہاں لیول پلینگ فیلڈ نظر نہیں آ رہی ہے۔

ملتان روڈ کے ایک ووٹر محمد عاشق نے ڈی ڈبلیو کے سوال پر برجستہ کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ فیصلے کرنے والے اپنی مرضی کے نتائج چاہتے ہیں اور ان کی سوچ یہ ہے کہ 'سنجیاں ہو جان گلیاں وچ مرزا یار پھرے‘۔

کرکٹ سے ریٹائرمنٹ تا سیاسی نااہلی، عمران خان کا سیاسی سفر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں