1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سفارتکاروں کو ہراساں کرنے پر: بھارت کا پاکستان سے احتجاج

جاوید اختر، نئی دہلی
19 مارچ 2019

بھارت اور پاکستان کے مابین موجودہ کشیدہ حالات کے درمیان نئی دہلی نے پاکستان میں اپنے سفارتی اہلکاروں کو مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد سے فوراً کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3FIVs
Symbolbild | Indien Pakistan Freundschaft
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/H. Tyagi

بھارت نے اس حوالے سے پاکستان کو ایک وربل نوٹ (Note Verbale) دیا ہے اور ان واقعات کی تفتیش کرانے نیز سفارتی اہلکاروں کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

بھارت کے حکومتی ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں تعینات بھارتی ہائی کمیشن کے کئی اہلکاروں کو آٹھ سے گیارہ مارچ کے درمیان مبینہ طور پر ہراساں کیا گیا۔ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن نے اس پر سخت احتجاج کرتے ہوئے پاکستانی وزارت خارجہ کو تیرہ مارچ کو ایک وربل نوٹ دیا، جس میں سفارتی اہلکاروں کو ہراساں کرنے اور ان کا جارحانہ انداز میں تعاقب کرنے کے واقعات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق مذکورہ نوٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریا کا دو پاکستانی اہلکار روزانہ تعاقب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ فرسٹ سکریٹری اور نیول ایڈوائزر جب اپنے اپنے کام سے آٹھ مارچ کو دفتر جارہے تھے تو ان کا بھی تعاقب کیا گیا۔ اس کے اگلے روز یعنی نو مارچ کو موٹر سائیکل  پر سوارپاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کا اس وقت تعاقب کیا جب وہ اپنی رہائش گاہ سے مارکیٹ جارہے تھے اور پھر بھارتی مشن سے اپنی رہائش گاہ اور اپنے گھر سے بھارتی ہائی کمشنر کے پاس جارہے تھے۔ اس کے علاوہ دس تاریخ کو بھی ڈپٹی ہائی کمشنر کا تعاقب کیا گیا۔

اس وربل نوٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ نو اور دس مارچ کو نیول ایڈوائزر کا اس وقت جارحانہ انداز میں تعاقب کیا گیا جب وہ اپنی رہائش گاہ سے اسلام آباد کلب اور پھر ایک دوسرے افسر کی رہائش گاہ پر جارہے تھے۔گیارہ مارچ کو بھی نیول ایڈوائزر کی کار کا اس وقت پیچھا کیا گیا جب وہ اپنی رہائش گاہ سے بھارتی مشن جارہے اور پھر واپس لوٹ رہے تھے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کو دیے گئے نوٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ بھارتی ہائی کمشنر کے ایک ذاتی محافظ کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی، جو ان دنوں ایک اسپتال میں زیر علاج ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی سکیورٹی اہلکار بھارتی سفارت کاروں اور افسران کے گھروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور مقامی سکیورٹی گارڈز پر بھی اس بات کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ بھارتی افسران کی آمد ورفت کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ اس ضمن میں نو اور دس مارچ کو بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کی رہائش گاہ کے باہر پاکستانی اہلکاروں کی موجودگی کا ذکرکیا گیا ہے۔

نوٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران دو بھارتی افسران کو ایک ہی نمبر سے متعدد جھوٹے فون کالز موصول ہورہے ہیں۔ بھارت نے وربل نوٹ دے کر پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ان واقعات کی فوراً تفتیش کرائی جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہونے پائیں۔

Pakistan nach Abschuss zweier Kampfjets aus Indien
تصویر: picture-alliance/AA/M.S. Ugurlu
Pakistan Auslieferung des Pilots Abhinandan Varthaman nach Indien
تصویر: Reuters/D. Siddiqui

وربل نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات سفارتی تعلقات کے حوالے سے ویانا کنونشن کی صریحاً خلاف ورزی ہیں اور بھارتی ہائی کمیشن کے افسران، عملہ کے اراکین اور ان کے اہل خانہ کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔

بھارت میں متعدد سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ موجودہ نریندرمودی حکومت آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے اصل ملکی مسائل سے ووٹروں کی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دے رہی ہے۔

یوں بھی دونوں پڑوسی ملکوں کا ایک دوسرے کے خلاف اپنے اپنے سفارت کاروں اور ان کے اہل خانہ کو پریشان اور ہراساں کرنے کا الزام عائد کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بھارت اس سے پہلے بھی اپنے سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کے خلاف احتجاج درج کراچکا ہے۔

Indien Militärbeamte mit Fragment eines angeblich abgeschossenen pakistanischen F-16-Jet
تصویر: Reuters/A. Fadnavis

گزشتہ برس فروری اور مارچ میں بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے پر اپنے سفارت کاروں کو پریشان کرنے کے الزامات لگائے تھے۔ اس وقت پاکستان نے شکایت کی تھی کہ دہلی میں اس کے سفارت کاروں کا تعاقب کیا جارہا ہے اور بلا اجازت ان کی تصویریں اتارنے اور انہیں دھمکانے کے واقعات ہورہے ہیں۔ اس کے جواب میں بھارت نے بھی اسلام آباد میں اپنے سفارت کاروں کے ساتھ بدسلوکی کی فہرست پیش کرتے ہوئے شکایت درج کرائی تھی۔

حتی کہ بھارت نے اسلام آباد میں واقع اپنے ہائی کمیشن کے درجے کو کم کرتے ہوئے اسے نان فیملی اسٹیشن قرار دے دیا تھا۔ اس کی وجہ سے بھارتی سفارت کاروں اور سفارت خانے کے عملے کو مشورہ دیا گیا تھاکہ وہ اپنے اہل خانہ کو پاکستان میں نہیں رکھیں۔ بعد میں دونوں ملکوں نے باہمی سفارتی تعلقات کے متعلق سن 1992 کے معاہدہ کے مطابق رویہ اپنانے اور اس پر عمل کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا تھا۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ دونوں ملکوں کے رشتوں میں جاری کشیدگی کی وجہ سے زمینی سطح پر زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔

 

سرحد پر بھی یوم آزادی کی خوشیاں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں