1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی ولی عہد کا پاکستان کے بعد بھارت کا پہلا دورہ

جاوید اختر، نئی دہلی
19 فروری 2019

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے بعد بھارت کے اپنے دو روزہ دورے پر آج منگل انیس فروری کو نئی دہلی پہنچ رہے ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ کے حالیہ حملے کے پس منظر میں اس دورے کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Deqe
پرنس محمد بن سلمان اور بھارتی وزیر اعظم مودی کی گزشتہ برس نومبر میں بیونس آئرس میں ملاقات کے موقع پر لی گئی ایک تصویرتصویر: Reuters/Bandar Algaloud/Courtesy of Saudi Royal Court

سعودی عرب کے ولی عہد کے اس پہلے دورے کے دوران بھارت، نئی دہلی کے مطابق مبینہ طور پر سرحد پار سے کی جانے والی، دہشت گردی کا معاملہ بھی اٹھائے گا جب کہ دونوں ممالک دفاعی اور اقتصادی تعلقات کے حوالے سے کئی معاہدوں پر دستخط بھی کریں گے۔

پرنس محمد بن سلمان پاکستان سے بھارت جانے کے بجائے اب ریاض سے دہلی آ رہے ہیں۔ بھار ت میں اسے سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیوں کہ پلوامہ حملے کے بعد، جس میں 45 بھارتی سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے، بھارت نے سعودی ولی عہد کے اسلام آباد سے دہلی آنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق محمد بن سلمان مقامی وقت کے مطابق منگل کو رات نو بجے نئی دہلی پہنچیں گے اور کل بدھ کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ براہ راست اور پھر وفود کی سطح پر بات چیت کریں گے۔

Saudischer König Salman ehrt Indischen Premierminister Narendra Modi
اپریل دو ہزار سولہ میں وزیر اعظم مودی ریاض میں سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ساتھتصویر: Reuters/Saudi Press Agency/Handout

اسلام آبادکے بجائے ریاض سے نئی دہلی
سفارتی امور کے ماہر ریاض الشکر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد سعودی ولی عہد پیر کو ریاض لوٹ گئے تھے اور اب منگل کو ریاض سے نئی دہلی آ رہے ہیں۔ یہ پلوامہ حملے کے بعد بھارت کے تحفظات کے سعودی قیادت کی جانب سے تسلیم کیے جانے کا ثبوت ہے۔‘‘ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے حوالے سے ریاض الشکر کا کہنا تھا، ’’گزشتہ ماہ ریاض میں دونوں ملکوں کی مشترکہ دفاعی تعاون کمیٹی کی چوتھی میٹنگ ہوئی تھی۔ دفاعی تعاون اب دونوں ریاستوں کے باہمی تعلقات کا ایک اہم حصہ ہو گا۔ دونوں ملک دفاعی ساز وسامان کی مشترکہ تیاری کے امکانات بھی تلاش کریں گے۔ وہ مشترکہ فوجی مشقوں پر بھی غور کریں گے اور رواں سال ہی ان کی طرف سے پہلی مشترکہ بحری فوجی مشقیں کیے جانے کی بھی امید ہے۔‘‘

اس دوران بھارت نے سعودی عرب کے ساتھ بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ میں اقتصادی امور کے سیکرٹری ٹی ایس تریمورتی نے ایک میڈیا بریفنگ کے دوران کہا، ’’دونوں ممالک کے مابین سرمایہ کاری، سیاحت، تعمیرات اور اطلاعات و نشریات کے شعبوں میں پانچ معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اس دورے سے بھارتی سعودی دوطرفہ تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔‘‘

Mohammad bin Salman in Pakistan Imran Khan
بھارت جانے سے قبل محمد بن سمان نے پاکستان کا دورہ کیا تھا: سعودی ولی عہد اسلام آباد پہنچنے پر وزیر اعظم عمران خان سے گلے ملتے ہوئےتصویر: Reuters

اسٹریٹیجک پارٹنرشپ

تریمورتی نے مزید کہا، ’’بھارت ان آٹھ اسٹریٹیجک پارٹنر ممالک میں سے ایک ہے، جن کے ساتھ سعودی عرب سیاست، سکیورٹی، تجارت، سرمایہ کاری اور ثقافت کے شعبوں میں باہمی شراکت کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں بھارت دونوں ملکوں کے مابین وزارتی سطح پر ایک اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کونسل کے قیام کو بھی حتمی شکل دے رہا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اس سے ہماری اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو مزید تقویت ملے گی اور ہم اپنی بات چیت کو مرکوز اور عملی انداز میں آگے بڑھا سکیں گے۔‘‘

خیال رہے کہ سعودی عرب بھارت کو دہشت گردی کے نیٹ ورکس کے بارے میں بھی اطلاعات اور خفیہ معلومات فراہم کرتا ہے۔ 2016ء میں وزیر اعظم مودی کے دورہ ریاض کے دوران اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ بھارتی حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کے ساتھ بات چیت کے دوران بھارت دہشت گردوں کو پاکستان سے مبینہ مالی امداد کا معاملہ بھی پوری شدت سے اٹھائے گا اور جو مشترکہ بیان جاری کیا جائے گا، اس میں بھی دہشت گردی اور اس سے نمٹنے کے حوالے سے سخت موقف کا اظہار دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

نئی دہلی میں حکومتی ذرائع کا خیال ہے کہ سعودی عرب اب کشمیر اور سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کے متعلق پاکستان کے بیانیے کو تسلیم نہیں کرتا، جو بھارت کے لیے اطمینان کی بات ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے اعلیٰ اہلکار ٹی ایس تریمورتی کا کہنا تھا، ’’سعودی عرب نے پلوامہ میں چودہ فروری کو بھارتی سکیورٹی دستوں پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ ہم سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کے لیے سعودی عرب کو سراہتے ہیں۔‘‘

مشترکہ بیان

تاہم بھارت ہی میں کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا تھا، اس میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی گئی تھی اور بھارت کے تحفظات کا کوئی عکس دکھائی نہیں دیا تھا۔ اس کے برعکس دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی گئی تھی۔ اسی طرح مشترکہ بیان میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے، نیز سکھ زائرین کے لیے کرتارپور کوریڈور کھولنے پر عمران خان کی کوششوں کی تعریف بھی کی گئی تھی۔ ساتھ ہی پاکستان اور بھارت پر زور دیا گیا تھا کہ امن و استحکام کو یقینی بنانے اور خطے کے تمام دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لیے بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔

ان تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بات کی امید بہت کم ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیر اعظم نریندر مودی کی بات چیت کے بعد جاری کیے جانے والے کسی مشترکہ بیان میں ’سرحد پار سے جاری دہشت گردی‘ جیسے الفاظ کا کوئی استعمال کیا جائے۔ 2016ء میں مودی کے دورہ ریاض کے موقع پر بھی جاری کردہ بیان میں اس طرح کا کوئی جملہ استعمال نہیں کیا گیا تھا۔

بھارتی قیدیوں کی رہائی کی اپیل
نئی دہلی میں سول سوسائٹی نے امید ظاہر کی ہے کہ وزیر اعظم مودی سعودی ولی عہدکے ساتھ بات چیت کے دوران ان 2250 بھارتی شہریوں کا معاملہ بھی ضرور اٹھائیں گے، جو سعودی عرب کی جیلوں میں بند ہیں۔ ان میں سے بعض بھارتی باشندے تو بہت معمولی جرائم میں ایک عرصے سے جیلوں میں ہیں۔ سول سوسائٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کو چاہیے کہ وہ سعودی قیادت سے انسانی بنیادوں پر ان قیدیوں کی رہائی کی اپیل کرے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے دورے کے دوران شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی جیلوں میں بند تقریباﹰ  2100 پاکستانی شہریوں کی رہائی کا اعلان کیا تھا۔

حالیہ برسوں میں سعودی عرب اور بھارت کے باہمی اقتصادی تعلقات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ سعودی عرب اس وقت بھارت کا چوتھا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ملک ہے۔2017 اور 2018 کے مالی سال کے دوران دونوں ملکوں کے مابین 27.48 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی۔ بھارت کی خام تیل کی ضروریات کاسترہ فیصد اور مائع گیس کی ضروریات کا بتیس فیصد حصہ سعودی عرب ہی پورا کرتا ہے۔ بھارتی ریاست مہاراشٹر میں تیل صاف کرنے کا کارخانہ قائم کرنے کے لیے دونوں ممالک نے 44 بلین ڈالرکے ایک مشترکہ منصوبے پر دستخط بھی کیے ہیں تاہم مختلف وجوہات کے باعث مقامی باشندے اور کئی غیر حکومتی تنظیمیں اس کارخانے کے قیام کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں