1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کو برطانوی اسلحے کی برآمد خلاف قانون، عدالتی فیصلہ

20 جون 2019

ایک عدالتی فیصلے کے مطابق برطانوی حکومت سعودی عرب کو ہتھیاروں کی برآمد کے عمل میں قانون شکنی کی مرتکب ہوئی۔ عدالت نے کہا کہ لندن حکومت نے ایسے اسلحے کی برآمد کی اجازت دی، جو یمنی جنگ میں استعمال ہو سکتا تھا۔

https://p.dw.com/p/3KlUh
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com

لندن سے جمعرات بیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ایک برطانوی عدالت نے اس بارے میں ایک مقدمے میں اپنا یہ حکم سنایا کہ ان ہتھیاروں کی خلیجی بادشاہت سعودی عرب کو فراہمی کے عمل میں لندن حکومت کو یمن کے خدشات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے تھا۔

برطانوی دارالحکومت میں ایک اپیل کورٹ کے جج ٹیرینس ایتھرٹن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سعودی عرب کو، جو خلیج فارس کے علاقے میں برطانیہ کی ایک بہت امیر عرب اتحادی بادشاہت ہے، برطانوی ہتھیاروں کی برآمد کا لندن حکومت کی طرف سے کیا جانے والا فیصلہ 'قانونی حوالے سے کافی حد تک غلط تھا‘۔

روئٹرز کے مطابق یہ فیصلہ سیاسی اور قانونی حوالے سے برطانوی حکومت کے لیے کافی شرمندگی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس فیصلے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لندن کو اب سعودی عرب کو ہتھیاروں کی ہر قسم کی برآمدات فوری طور پر بند کر دینا ہوں گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ بہرحال ہے کہ لندن کی طرف سے ریاض کو ہتھیاروں کی برآمد سے متعلق اگلے حکومتی اجازت نامے کے خلاف جیسے عدالت نے 'سٹے آرڈر‘ دے دیا ہے۔

ساتھ ہی آج کے اس عدالتی فیصلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ برطانوی حکومت کو اب اپنے اس عمل پر نئے سرے سے غور کرنا ہو گا، جس کے تحت وہ سعودی عرب کو اسلحے کی آمدات کے اجازت نامے جاری کرتی ہے۔

برطانیہ کی سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کی تجارت سے متعلق اور یمنی خانہ جنگی کے تناطر میں لندن حکومت کے خلاف یہ مقدمہ اسلحے کی تجارت کے خلاف مہم Campaign Against the Arms Trade یا CAAT نامی تنظیم نے دائر کیا تھا۔

اس مہم کے ایک عہدیدار اینڈریو اسمتھ نے برطانوی اپیل کورٹ کے فیصلے کے بعد صحافیوں کو بتایا، ''سعودی حکومت کا شمار دنیا کی ظالم ترین اور سب سے زیادہ جبر کرنے والی حکومتوں میں ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود سعودی عرب گزشتہ کئی عشروں سے برطانوی ساختہ ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ برطانیہ کی طرف سے سعودی عرب کو ہر قسم کے ہتھیاورں کی فروخت کو فوری طور پر روکا جائے۔‘‘

اس مہم کی قانونی مشیر اور اس مقدمے میں CAAT  کی نمائندگی کرنے والی خاتون وکیل روزا کرلنگ نے کہا، ''لندن حکومت کو اب یہ سوچنا ہی پڑے گا کہ وہ یا تو سعودی عرب کو ہتھیاروں کی برآمد کے موجودہ معاہدے پر عمل درآمد معطل کر دے یا پھر اس بات پر نئے سرے سے غور کرے کہ اس عرب بادشاہت کو مستقبل میں اسلحے کی فروخت کے حکومتی اجازت نامے کن شرائط کے تحت جاری کیے جائیں گے۔‘‘

م م / ع ا / روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں