1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب سے پاکستانی مزوروں کی واپسی جاری

شکور رحیم، اسلام آباد16 نومبر 2013

سعودی عرب میں غیر ملکی مزدوروں کے لیے قوانین میں سختی کے بعد سے وہاں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق اب تک 50 ہزار سے زائد پاکستانی مزدور واپس پہنچ چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1AIl3
تصویر: Reuters/Faisal Al Nasser

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز چوہدری کے مطابق حکومت پاکستان جدہ میں اپنے قونصلیٹ کے ذریعے سعودی حکام سے رابطے میں ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ اس صورتحال کے پیش نظر گزشتہ ہفتے جائزہ لینےخود بھی جدہ گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی سفارت خانے اور قونصل جنرل کی معاونت سے آٹھ لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ "جو اندازہ مجھے دیا گیا تھا، وہ 54 ہزار کا تھا، جن میں سے بہت سے واپس آنے کے لیے تیار تھے کیونکہ وہ وہاں کے مستقل رہائشی نہیں تھے اور ان کے کاغذات پر کام جاری تھا۔"

دفتر خارجہ کے حکام کے مطابق پیشہ بد لنے اور کفیل کے ساتھ ملازمت سے فارغ ہونے کے علاوہ حج و عمرے کے ویزے پر غیر قانونی سکونت اختیار کرنے والے افراد کو سعودی عرب سے ملک بدری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہزاروں پاکستانی مزدورں کو نئے قوانین کی خلاف ورزی پر قید، جرمانے اور ملک بدری کی سزاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

سعودی عرب میں 15 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں، یہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی کسی ایک ملک میں سب سے زیادہ تعداد ہے
سعودی عرب میں 15 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں، یہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی کسی ایک ملک میں سب سے زیادہ تعداد ہےتصویر: Fayez Nureldine/AFP/Getty Images

اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں ویلڈنگ کا کام کرنے اورصوبہ پنجاب کے ضلع چکوال سے تعلق رکھنے والے ملک نوید بھی دو سال قبل زیادہ پیسے کمانے کے لیے سعودی دارلحکومت ریاض گئے تھے۔ پھر وہاں لیبر قوانین میں سختی کے بعد ان کے آجر (کفیل) نے ان کے ویزے میں توسیع سے انکار کر دیا۔ دو ہفتے قبل واپس لوٹنے کے بعد نوید ایک بار پھر کام کے لیے پرانی دوکان پر پہنچے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ :

"ویزہ ختم ہوگیا۔ جس بندے(کفیل) سے ویزہ لگوایا تھا، اس کو کہا کہ ویزے کا ٹائم بڑھوا دو یا رہنے کی اجازت لے دو لیکن حالات خراب تھے، میرا کچھ نہیں بنا کہ میں وہاں رک سکتا۔"

وزارت خارجہ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں 15 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں۔ یہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی کسی ایک ملک میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ پاکستان کی کمزور معیشت کا دار و مدار بڑی حد تک سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانے والی رقوم پر ہے۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی جو پیسہ بھجوا رہے تھے، پچاس ہزار افراد کے وہاں سے نکل جانے سے اس کے حجم میں یقیناً فرق پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ:

پاکستانی شہری فیصل، جو گزشتہ کئی برسوں سے سعودی عرب کے شہر مکّہ میں ٹیکسی چلا کر روزی کما رہا ہے
پاکستانی شہری فیصل، جو گزشتہ کئی برسوں سے سعودی عرب کے شہر مکّہ میں ٹیکسی چلا کر روزی کما رہا ہےتصویر: DW/Almakhlafi

"اندازہ یہ کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب سے پندرہ سے بیس فیصد تک ترسیلات زر میں کم آئے گی۔ اس حوالے سے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ آ سکتا ہے۔ اور پھر اس کا اثر روپے کی قدر پر پڑے گا، جس سے روپے کی قدر مزید گرنے کا امکان ہو سکتا ہے۔"

ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق پاکستان کی مخدوش معاشی صورتحال کے سبب پہلے ہی ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا تھا اور اب اچانک پاکستان کی روزگار کی منڈی کو پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک نئے افراد کا دباؤ بھی برداشت کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب غیر قانونی پاکستانی مزدوروں کو سعودی عرب سے نکالے جانے کے معاملے پر حکومت کو اپوزیشن جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے بھی سخت تنقید کا سامنا ہے۔ اے این پی نے اس بارے میں ایوان بالا یعنی سینیٹ میں ایک تحریک التوا بھی جمع کرا رکھی ہے۔ اس تحریک التوا پر بحث سینیٹ کے آئندہ اجلاس میں متوقع ہے۔ اے این پی کی قیادت کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامت کی بجائے زبانی جمع خرچ پر زیادہ توجہ دی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں