1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سرحدیں بند کرو‘، جرمنی میں مہاجرین کے خلاف مظاہرہ

عاطف بلوچ ڈی پی اے
4 مارچ 2018

جرمنی کے جنوب مغربی حصے کے ایک چھوٹے سے شہر کانڈل میں ہوئے ایک مظاہرے میں مقامی لوگوں نے مہاجرین کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ دو ماہ قبل اسی شہر میں ایک افغان مہاجر نے ایک پندرہ سالہ لڑکی کو پرتشدد طریقے سے ہلاک کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/2tf3b
Deutschland | Demos in Kandel | Das Bild der vertorbenen Mia Valentin auf dem Demozug "Kandel ist überall".
تصویر: DW/A. Prange

گزشتہ برس ستائیس دسمبر کو اسی شہر میں ایک افغان مہاجر نے چاقوؤں کے وار کرتے ہوئے اپنی سابقہ گرل فرینڈ کو ایک میڈیکل اسٹور کے ملازم کے سامنے ہی ہلاک کر دیا تھا۔ قتل کی اس واردات کے بعد معلوم ہوا تھا کہ مقتولہ اور اس کے والدین نے متعدد مرتبہ پولیس سے شکایت کی تھی کہ یہ افغان مہاجر ’جارحانہ رویوں‘ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

جرمن شہر ميں مہاجرين کے حق اور مخالفت ميں مظاہرے

افغان پناہ گزین جرمن لڑکی کے قتل پر پشیماں

انیس سالہ جرمن لڑکی کا مشتبہ قاتل نابالغ افغان مہاجر گرفتار

مزید انتظار نہیں!

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمن شہر کانڈل میں ہفتے کے دن منعقد کیے گئے ایک مظاہرے میں مقامی لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مہاجرین کے لیے ملکی سرحدوں کو بند کردینا چاہیے۔

’غیرقانونی مہاجرت‘ کے خلاف اس احتجاجی مظاہرے کا اہتمام اسلام اور مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی ’اے ایف ڈی‘ کے حامیوں نے کیا۔ اس کے ساتھ ہی کانڈل میں عوامیت پسندی کی سیاست کے مخالفین لبرل طبقوں نے بھی ایک مظاہرہ کیا، جس کا مقصد کٹر نظریات کو رد کرنا تھا۔

کانڈل کے مظاہرے میں شامل ہونے والے اے ایف ڈی کے ایک سایستدان نے کہا، ’’ہم اپنے بچوں کو مہاجرین سے بچانے کی کوشش میں ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ سیاستدان اس تناظر میں ناکام ہو چکے ہیں کیونکہ ’میں اب اپنی سولہ سالہ بیٹی کو رات میں باہر بھیجنے سے کتراتا ہوں۔‘‘ 

قتل کی اس واردات کے بعد کانڈل میں خوف کی ایک فضا پیدا ہو گئی تھی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس واقعے سے کانڈل میں مہاجرین کے خلاف ایک شدید ردعمل پیدا ہوا، جسے عوامیت پسند سیاستدانوں نے اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا۔ تاہم آٹھ ہزار نفوس کی آبادی والے کانڈؒل میں زیادہ تر افراد عوامیت پسندی کی سیاست کے خلاف ہیں۔

اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ہفتے کے دن ہی تقریبا پندرہ سو افراد نے انتہا پسندی کے خلاف ایک مارچ کا اہتمام بھی کیا۔ اس مارچ میں لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ سب مل کر پرامن طریقے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں جبکہ کچھ لوگ ایک مقامی سانحے کو غلط انداز میں پیش کرتے ہوئے صورتحال کو کشیدہ کرنا چاہتے ہیں۔

پولیس نے بتایا ہے کہ یہ مظاہرے پرامن رہے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا۔ مقامی میڈٰیا کے مطابق ان مظاہروں کے دوران سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔