1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ساہیوال واقعہ: وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے استعفے کا مطالبہ

23 جنوری 2019

جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد اعلیٰ افسران کو فارغ اور واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ چلانے کے حکومتی اعلانات کے بعد بھی ساہیوال واقعے کے حوالے سے صورتحال مزید گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3C31S
Pakistan Lahore Beerdigung nach Polizeigewalt
تصویر: DW/T. Shahzad

مسلم لیگ نون نے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ساہیوال واقعے کے خلاف لاہور میں احتجاج اب بھی جاری ہے اور مظاہرین نے فیروزپور روڈ کو بند کر رکھا ہے۔ ادھر پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے جے آئی ٹی رپورٹ پر بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر شدید احتجاج کیا۔ ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کیے رکھا۔ توقع ہے کہ جمعرات کے روز پنجاب اسمبلی میں سانحہ ساہیوال پر’ان کیمرہ‘ بات ہو گی۔

ادھر وفاقی دارالحکومت سے موصولہ اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے بھی وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ بزدار سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سانحہ ساہیوال پر 72 گھنٹے میں رپورٹ سامنے لانے کا وعدہ کیا گیا تھا، جو پورا نہیں ہوا۔ اس پر پنجاب حکومت کو وضاحت پیش کرنی چاہیے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ نون کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ سانحہ ساہیوال پر بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے اور ہم اس ’جے آئی ٹی ڈرامے‘ کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس حوالے سے نئی غیر جانب دار جے آئی ٹی بنائی جائے، جس کے سامنے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کو بھی پیش کیا جائے۔‘‘

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ اس سانحے میں مرنے والے بے قصور تھے لیکن ان کو مارنے کے لیے کیا جانے والا آپریشن سو فیصد درست تھا۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ ساہیوال میں ملوث افراد کو 19 جنوری کی شام گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن اگلے روز 20 جنوری کو صبح 11 بجے درج کی جانے والی ایف آئی آر میں گرفتار کیے گئے ان ملزمان کے نام نہیں ڈالے گئے جب کہ دوسری طرف جن لوگوں کو بے قصور قرار دیا گیا، اُن کے نام دہشت گردی کے حوالے سے درج کیے جانے والے ایک اور مقدمے کی ایف آئی آر میں ڈال دیے گئے ہیں، ’’لگتا یوں ہے کہ وفاقی اور صوبائی وزراء سانحہ ساہیوال میں ملوث افراد کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

Pakistan Islamabad PK Wahlsieg Politiker Imran Khan
وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ اس بات کا دھیان رکھا جائے کہ بیوروکریسی اس کیس پر اثر انداز نہ ہو سکےتصویر: picture-alliance/AP Photo/TIP

رانا ثناء اللہ کے مطابق حکومتی وزراء کی طرف سے کہا گیا کہ مرنے والے چاروں افراد دہشت گرد تھے، پھر کہا گیا کہ ان چاروں کے نام ریڈ بکس میں درج تھے، پھر بتایا گیا کہ جائے وقوعہ پر گاڑی کے مسافروں کی طرف سے فائرنگ کی گئی اور آخر میں یہ اطلاع دی گئی کہ گاڑی سے اسلحہ اور خودکش جیکٹیں ملی ہیں، ’’ان سارے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے اور جھوٹے ثابت ہونے پر حکومتی وزرا کو عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔‘‘

’لاٹھی گولی کی سرکار ہے تو پھر عدالتوں کو تالے لگوا دیں‘

ادھر وزیراعظم پاکستان عمران خان کو بھی پاکستان پہنچنے پر جے آئی ٹی کی رپورٹ اور اس کی روشنی میں حکومت پنجاب کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ اس بات کا دھیان رکھا جائے کہ بیوروکریسی اس کیس پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ وزیراعظم عمران خان نے پنجاب پولیس میں اصلاحات کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کی اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بھی سفارشات طلب کی ہیں۔

وزیراعظم کو پیش کی جانے والی جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق سی ٹی ڈی افسروں کو قتل کا ذمے دار قرار دے دیا گیا جبکہ سانحہ ساہیوال میں مقتول میاں بیوی اور ان کی بیٹی بے گناہ ثابت ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے بعد سی ٹی ڈی کے سربراہ سمیت تین افسروں کو تبدیل کر دیا گیا ہے جبکہ دو افسروں کو معطل بھی کیا گیا ہے۔ اس واقعے میں ملوث دیگر اہلکاروں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمات چلائے جانے کا کہا گیا ہے۔

سانحہ ساہیوال میں ہلاک ہونے والے محمد خلیل کے بھائی محمد جمیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومتی وزراء حقائق کو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں اور انہیں اس حکومت سے انصاف کی امید نہیں۔ اسی واقعے میں مارے جانے والے شاہ زیب کے بھائی احتشام جاوید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موجودہ حکومت اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لیے میرے بھائی کو دہشت گرد قرار دینا چاہ رہی ہے۔

 انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی کہ ان کا بھائی تو اب واپس نہیں آ سکے گا لیکن اس پر لگائے جانے والے دہشت گردی کے داغ کو دھو کر انصاف کا تقاضا پورا کیا جائے۔ ادھر پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ فضیل اصغر نے ایک ان کیمرہ بریفنگ میں بتایا کہ ذیشان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے لیکن اس کا تعلق ایک ’دہشت گرد عدیل حفیظ‘ کے ساتھ رہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق ذیشان کے خلاف تحقیقات کے مکمل ہونے کو ایک مہینہ لگ سکتا ہے۔