سانحہء گوجرہ اور پاکستان میں معاشرتی شدت پسندی کی وجوہات
11 اگست 2009حالیہ دنوں میں صوبہء پنجاب کے شہر گوجرہ میں مسیحی آبادی پر ایک ہزار سے زائد انتہاپسندوں کے حملے نے پاکستانی سماج میں شدت پسندی کی معاشرتی وجوہات پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس بحث کا محور زیادہ تر ضیاء دور میں بنایا گیا توہین رسالت کا قانون ہے۔
پاکستان کے شہر گوجرہ میں گذشتہ ماہ کے اواخر میں مسلم شدت پسندوں نے وہاں کی مسیحی برادری پر حملہ کیا۔ اس حملے میں سات شہری ہلاک ہوئے جبکہ 80 سے زائد گھر جلا دئے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی اور اُنہوں نے مسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن مجید کی توہین کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مسیحی آبادی کو نشانہ بنایا۔ اطلاعات کے مطابق شدت پسندوں کی اس کارروائی سے پہلے آس پاس کی مساجد میں مسیحی برادری کے خلاف مسلم آبادی کے جذبات کو بھڑکانے کی غرض سے متواتر اعلانات بھی کئے گئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن کی مبینہ توہین ہی اس سانحے کی اصل وجہ ہے؟ یا پھر پاکستانی سماج کی بنت میں کوئی خرابی، کوئی کمی ہے، جو اس قسم کے غیر انسانی سانحات کا سبب بنتی ہے؟ اور سب سے اہم سوال یہ کہ شدت پسندی جیسی سماجی بیماری کی جڑیں پاکستانی ریاست کے کس قانون سے نشونما پارہی ہیں؟
اس حوالے سے لاہور یونیورسٹی آف مینجمینٹ سائنسز میں شعبہء تاریخ کے لیکچرار عاصم سجاد اختر کہتے ہیں کہ قرارداد مقاصد سے1973ء کے آئین اور پھر جنرل ضیاء کی آمریت سے جنرل مشرف کے دور تک، پاکستان کے آئین میں ایسے بہت سے قوانین شامل کئے گئے، جن کا اثر معاشرے کے مخلتف حصوں پر ہوا۔ اس طرح عام شہریوں کی نفسیات بھی متاثر ہوئی اور معاشرے میں شدت پسندانہ رجحانات بھی پھیلے۔
توہین رسالت کے قانون کی اسلامی تعلیمات کے حوالے سے کیا اہمیت ہے؟ اور کیا یہی ایک طریقہ ہے کہ جس سے اسلام کے مذہبی وقار کی حفاظت کی جا سکتی ہے؟ کیا اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی ریاست کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں میں مذہب کے حوالے سے تفریق برتے؟ ان سوالات کا جائزہ لیتے ہوئے، معروف اسلامی مفکر جاوید احمد غامدی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یہ قوانین اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہیں اور ان سے اسلام کی دعوت کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔
جاوید احمد غامدی کا موقف ہے کہ پاکستان کی موجودہ پارلیمنٹ کو جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے قوانین کو فوری بدلنے یا ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک سے انتہاپسندی اور شدت پسندی کی جڑوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
تحریر: انعام حسن
ادارت: امجد علی