1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سانحہ قصور، پولیس اور سیاست دانوں کے کردار پر سوالیہ نشان

تنویر شہزاد، لاہور19 اگست 2015

سانحہ قصور کے حوالے سے جاری کی جانے والی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں تفتیش کی نگرانی کرنے، چالان داخل کرنے تک مقدمے کی پیروی کرنے اور متاثرہ بچوں کو جسمانی اور نفسیاتی علاج کی سہولت فراہم کرنی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GHxT
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن نے منگل کی شام سانحہ قصور کے حوالے سے اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کر دی ہے۔ سات صفحات پر مشتمل اپنی تفصیلی رپورٹ میں سانحہ قصور کے حوالے سے پولیس اور سیاست دانوں کے کردار کے حوالے سے بھی کئی اہم سوال اٹھائے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 11 اگست کو ایچ آر سی پی اور اے جی ایچ ایس کے چائلڈ رائٹس یونٹ کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے متاثرہ علاقے کے دورے کے دوران پولیس کے سینئر افسران کی تحقیقاتی کمیٹی سے ملنے سے گریز کیا۔ رپورٹ میں اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا کہ اس اسکینڈل سے متعلق مقدموں کے اندراج سے مہینوں پہلے پولیس ان ویڈیو فلموں اور اس کے حوالے سے علاقے میں پھیلنے والی افواہوں سے بے خبر تھی۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سانحہ قصور ایک ناقابل یقین واقعہ ہے جو پولیس کی ملی بھگت، دھوکا دہی اور شکایت کنندگان کی بے عزتی کرنے جیسے امور لیے ہوئے تھا۔ رپورٹ نے سانحہ قصور کے منظر عام پر آنے کے بعد معطل کیے جانے والے ایس ایچ او پولیس کے طرز عمل کو بھی مشکوک قرار دیا اور کہا کہ اس واقعے کے لیے پولیس کی طرف سے خفیہ طور پر کی جانے والی پہلی تحقیقاتی رپورٹ میں زمین کے تنازعے کو ریکارڈ پر لا کر متاثرہ بچوں اور ان کے خاندانوں کی شکایات کو بے معنی کرنے اور لوگوں کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق جولائی کے آغاز میں بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے حوالے سے مقدمات کے اندراج کے باوجود 11 اگست تک پولیس نے خود کو موثر تفتیش سے خود کو دور رکھا، کسی گواہ پر جرح نہیں کی ، بچوں کے ساتھ جن مقامات پر زیادتی کی گئی وہاں سے شہادتیں اور کوائف اکھٹے نہیں کیے گئے جبکہ رپورٹ کے مطابق پولیس قابل اعتراض ویڈیوز کی گردش کو روکنے میں بھی ناکام رہی۔

تحقیقاتی ٹیم نے متعدد افراد کی شکایت سنیں کہ مقامی سیاست دان معاملے کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے پولیس پر دباو دے رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پولیس کا رویہ اور پاکستان مسلم لیگ نون کے بعض رہنماوں کے بیانات سے یہ تاثر قائم ہوا کہ جیسے یہ لوگ ظلم کے شکار بچوں کو انصاف دلانے میں مخلص نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر رانا ثناء اللہ نے پورے واقعے ہی کو جھوٹا قرار دے دیا اور کہا کہ مفاد پرست افراد نے زمین کے تنازعے کو یہ رنگ دے کر صورتحال کو بگاڑ دیا ہے۔

رپورٹ نے سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کے سانحہ قصور کے حوالے سے کردار کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں موجود کچھ سیاسی جماعتوں کے رہنماوں اور کارکنوں نے صوبائی حکومت کے خلاف تو کافی زہر اگلا لیکن انہوں نے بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ان کے استحصال کو روکنے کی ضرورت پر کوئی توجہ نہ دی، ’’ان میں سے کوئی ایک ایسا نہیں تھا، جس نے اپنی طویل تقریروں میں اس سماجی مسئلے پر کوئی بات کی ہو اور نہ ہی یہ ذکر کہ وہ اس معاملے میں کوئی اقدام کریں گے۔‘‘

ٹیم کے لیے حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے والے ان سیاست دانوں میں سے کوئی بھی پولیس سے نہیں ملا تاکہ تفتیش کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے، ’’ٹیم اس بارے میں یہی کہ سکتی ہے کہ ان کا مقصد اس صورتحال کو حکومت کے خلاف استعمال کرنا تھا۔۔۔ اس معاملے کے حوالے سے اس قدر مواد اور معتبر شہادتیں موجود ہیں، جن سے نہ صرف یہ واضح ہوتا ہے کہ مجرموں نے بچوں کی بڑی تعداد کے ساتھ جنسی درندگی کے ارتکاب کروانے کا جرم کیا ہے بلکہ یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ یہ بہیمانہ عمل برسوں سے جاری ہے۔‘‘

Pakistan Festnahmen im Skandal um Kindesmissbrauch
رپورٹ کے مطابق جولائی کے آغاز میں بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے حوالے سے مقدمات کے اندراج کے باوجود 11 اگست تک پولیس نے خود کو موثر تفتیش سے خود کو دور رکھاتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

اس رپورٹ کے مطابق جسمانی اور نفسیاتی ردعمل کو نظر انداز کرنے سے متاثرہ بچوں پر ہونے والے اثرات اذیت ناک ہو سکتے ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ متاثرہ علاقے میں اس مسئلے پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی تھی کہ ایسے جرائم کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے جانا چاہییں، ’’ان بچوں کی بحالی کے لیے نہ کسی این جی او کی خدمات حاصل کی گئیں اور نہ ہی اس قسم کے واقعات میں مدد مہیا کرنے والے ماہرین سے رابطہ قائم کیا گیا اور نہ ہی کوئی ادارہ اپنے طور پر گاوں میں جا کر یہ خدمات سر انجام دینے کے لیے آگے بڑھا ہے۔‘‘

سول سوسائٹی نیٹ ورک کے سربراہ عبداللہ ملک کہتے ہیں کہ بچوں پر تشدد کو روکنے کے لیے قومی پالیسی بننا چاہیے اور معاشرے کے تمام طبقات کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں