1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زینب الرٹ بل میں کیا سزائیں رکھی گئی ہیں؟

10 جنوری 2020

پاکستانی پارلیمان نے زینب الرٹ بل منظور کر لیا ہے، جس کے اندر یہ بھی درج ہے کہ ایسے افسر کو بھی سزا دی جائے گی جو بچے کے خلاف جرم پر دو گھنٹے کے اندر ایکشن نہیں لے گا۔

https://p.dw.com/p/3VzdH
Pakistan Fall Zainab Ansari - Vater zeigt Bild seiner ermordeten Tochter
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash

بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے آج پاکستان کے ایوان زیریں نے زینب الرٹ بل متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔ یہ بل اٹھارہ سال سے کم عمر بچون کے خلاف جرائم کی روک تھام کا بل ہے۔  زینب کی دوسری برسی کے موقع پر آج اس بل کی منظوری دی گئی ہے۔ یہ بل فوری طوری پر نافزالعمل ہو گا۔ 

 بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے کيسز میں اضافہ: اسباب کیا ہیں؟

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش
تفصیلات کے مطابق 10 جنوری بروز ہفتہ انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں زینب الرٹ بل منظوری کے لیے پیش کیا۔ اسپیکر اسد قیصر نے اجلاس کی صدارت کی۔  ڈاکٹر شیریں مزاری کی طرف سے تحریک پیش کی گئی کہ زینب الرٹ جوابی رد عمل اور بازیابی بل 2019 ء  زیر غور لایا جائے۔ بل کی تمام شقوں پر ایوان سے منظوری لی گئی۔ اسکے بعد قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر یہ بل منظور کر لیا۔ یہ بل دراصل گمشدہ بچوں کے لیے الرٹ کو بڑھانے، جوابی ردعمل اور بازیابی کے لیے احکامات وضع کرنے کی تجاویز زینب الرٹ بل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے اس بل کو منظور کر لیا ہے۔

زینب الرٹ بل کے تحت بچوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کی سزا کم از کم دس سال سے بڑھا کر چودہ سال قید کر دی جائے گی۔ اس بل کے متن میں درج ہے کہ بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی نشاندہی اور روک تھام کے لیے ایک ہیلپ لائن قائم کی جائے گی۔ ہیلپ لائن کے ساتھ ایک ایس ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔  اس بل کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر بچے یا بچی کے اغوا، بھگا کر لے جانے اسے قتل یا زخمی کرنے یا اس سے زنا بل جبر یا جنسی  خواہشات پوری کرنے کے ذمے دار کو سزائے موت، عمر قید اور ایک سے دو کروڑ روپے جرمانہ تک سزا دی جائے گی۔  بل کے اندر یہ بھی درج ہے کہ ایسے افسر کو بھی سزا دی جائے گی جو بچے کے خلاف جرم پر دو گھنٹے کے اندر ایکشن نہیں لے گا۔ اس کے علاوہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے اغوا، جنسی زیادتی یا قتل کی اطلاع کے لیے زینب الرٹ جوابی رد عمل اور بازیابی کے تحت ایجنسی قائم کی جائے گی۔ اس ایجنسی  زینب ٬٬الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی  زارا ٬٬ کا مقصد بچوں کے خلاف بڑھتے جنسی جرائم کا سد باب کرنا ہو گا۔  

قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے 9 اکتوبر 2019 ء کو اس بل کی منظوری دی تھی۔ اس بل کے مطابق اسلام آباد میں چائلڈ پروٹیکشن ایکت 2018 ء  کے تحت  ادارہ قائم کیا جائے گا۔ پولیس اور عدالتیں بچوں سے زیادتی اور دیگر جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کرنے کی پابند ہوں گی۔ پولیس کو جرم کا پتہ لگنے کے دو گھنٹے کے اندر رپورٹ درج کرنا ہو گی۔ بچے کے لاپتہ ہونے پر آٹو میٹک الرٹ جاری کرنے کا سسٹم بھی بنایا جائے گا۔ اس بل مین یہ بھی شامل ہے کہ اگر جائیداد کے تنازعے یا حصول کی کاطر اٹھارہ سال سے کم عمر بچے کو اغوا کیا جائے گا تو مجرم کو چودہ سال قید اور جرمانہ ہو گا۔ 

زینب الرٹ بل گذشتہ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر نے پیش کیا تھا۔ اس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے ٹویٹ کیا کہ زینب الرٹ بل میں نے پچھلی اسمبلی میں پیش کیا تھا لیکن اسمبلی کی مدت میں پاس نہ ہو سکا۔ آج اس کو پارلیمان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے ۔ امید ہے سینیٹ بھی اس قانون کو جلد منظور کر لے گی ۔ انہون نے یہ بھی لکھا کہ اس ملک کے معصوم بچوں کی حفاظت  پارلیمان اور حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔ 

یاد رہے کہ یہ بل سات سالہ ننھی زینب سے منسوب ہے جسے جنوری 2018 ء کو پاکستان کے شہر قصور میں اغوا کر کے جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل نے پاکستان کے بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم  کو اجاگر کیا تھا۔ زینب قتل کیس کے مجرم عمران علی کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے چار بار سزائے موت ایک بار عمر قید اور ساتھ میں سات برس قید کی سزا سنائی تھی۔

اس بل کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ اس بل کو پورے ملک میں نافذ کرنے کے لیے چاروں صوبوں کی اسمبلیوں کو بھی یہ بل پاس کرنا چاہیے۔