1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زنا بالجبر کے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتوں کا بل

7 مئی 2021

پی ٹی آئی کی حکومت کی طرف سے زنا بالجبر کے مقدمات کو فوری طور پر سننے کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کے بل کو سول سوسائٹی نے سراہا نون لیگ نے اس کی مخالفت کی اور پی پی پی نے بھی اس کی کوئی خاص حمایت نہیں کی۔

https://p.dw.com/p/3t7RH
Pakistan Islamabad | Protest gegen Vergewaltigung
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

 

 انسانی حقوق کے کارکنان بل کی مخالفت کو نا مناسب قرار دیتے ہیں اور ان کے خیال میں ایسی عدالتوں کی ملک کو ضرورت ہے۔ یہ بل جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے حکومتی اتحادی جماعت ایم کیوایم کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی کشور زہرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس طرح کے جرائم انتہائی خوفناک نوعیت کے ہیں اور ان جرائم کے بڑھنے کی وجہ سے لوگوں میں خوف بھی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو اور بیٹیوں کو باہر بھیجتے ہوئے ڈرتے ہیں ۔ کیونکہ ان جرائم کی نوعیت مختلف ہے جس کے لیے خصوصی تربیت اور ٹریننگ چاہیے اس لیے یہ خصوصی عدالتیں قائم کی جا رہی ہے تاکہ مجرموں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے اور ان کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مقدمات کی سماعت فوری طور پر ہو اور انصاف میں تاخیر نہ ہو۔‘‘

موٹروے زیادتی کیس: مجرموں کو موت کی سزا

ان کا مزید کہنا تھا کہ نون لیگ نے ججوں کے طریقہ کار پر اعتراض کیا ہے۔'' ان اعتراضات کی وجہ سے فی الحال اس معاملے کو ملتوی کر دیا گیا ہے لیکن  اپوزیشن کے اعتراضات کو سنا جائے گا اور بات چیت کی جائے گی اور باہمی مشاورت سے اس بل کو لایا جائے گا۔ عید کے بعد اس پر بحث ہوگی۔‘‘

Pakistan Protest gegen Vergewaltigungsfall auf der Autobahn
وکلا اور سول سوسائٹی کے اراکین ایک عرصے سے ملک میں ریپ کیسز کے خلاف سخت ترین اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔تصویر: DW/T. Shahzad

نون لیگ کی مخالفت

نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی محسن نواز رانجھا نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،'' رانا ثناء اللہ نے اس بل کی اس لیے مخالفت کی کہ انہیں حکومت کی نیت پر شک ہے ۔ ان خصوصی عدالتوں کے ججز غیرجانبدار نہیں ہوں گے بلکہ وزارت قانون کے ماتحت ہوں گے اور آپ کو یہ بات پیش نظر رکھنا چاہیے کہ رانا ثناء اللہ کی ضمانت کے معاملے میں وزارت قانون کا ایک واٹس ایپ میسج سیشن کورٹ کے جج کے پاس آیا تھا اور اس نے رانا ثناء اللہ کی ضمانت کو مسترد کر دیا تھا اور جس جج نے وزارت قانون کا حکم ماننے سے انکار کیا اس کو ہٹا دیا گیا تھا۔ تو ہمارا یہ اعتراض ہے کہ ان خصوصی عدالتوں کے ججوں کو وزارت قانون کے ماتحت نہیں ہونا چاہیے بلکہ غیر جانبدار ہونا چاہیے۔‘‘

موٹر وے زیادتی کیس: جرائم کو فروغ دینے والا نظام کب بدلے گا؟

مسئلے کی جڑ تک پہنچیں

ان کا مزید کہنا تھا کہ  خصوصی عدالتوں سے پہلے بہت دوسرے کام کرنا ہوں گے۔'' مثلا پہلے ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان میں زنا بالجبر کے حوالے سے یا جنسی تشدد کے حوالے سے ڈیٹا کیا کہتا ہے؟ کتنے واقعات سالانہ ہوتے ہیں؟ سزاؤں کی کیا شرح ہے؟ تفتیش میں کیا خامیاں ہیں؟ پراسیکیوشن میں کیا کمزوریاں ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔‘‘

پاکستانی بچوں کے ریپ ، قتل کے واقعات: اجتماعی ضمیر کہاں ہے؟

Pakistan I Protest gegen Gewalt an Frauen
ملک کی اسلامی جماعتوں کی خواتین بھی زنا بالجیر کے خلاف مظاہروں میں ہمیشہ پیش پیش رہنتی ہیں۔ تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

ان کا دعویٰ تھا کہ ملک میں 13 ہزار کے قریب قوانین ہیں جبکہ صرف چار ہزار قوانین ایسے ہیں جو آپریشنل ہیں۔ محسن نواز رانجھا کے بقول،'' صرف قوانین بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ مسائل کی جڑ تک پہنچنا پڑے گا اور ہمیں یہ بات بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ شہروں میں آگہی کی وجہ سے زنا بالجبر کے واقعات نسبتاً کم ہوتے ہیں جبکہ دیہاتوں میں ایسے واقعات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیہات میں سہولیات پہنچائی جائیں تاکہ اس طرح کے جرائم کو روکا جا سکے۔‘‘

اداریہ: ’دنیا تو ان کو بوجھ سمجھتی رہی مگر‘

مخالفت مناسب نہیں

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ اس طرح کی عدالتوں کی بہت ضرورت ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت کو ان کے قیام کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں،'' لیکن اس کے ساتھ ساتھ قوانین بنانے سے ہی مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ ان پرعملدرآمد کرانا بھی ہوگا۔ ہمارے ہاں عموماً قوانین بنا دیے جاتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ قوانین ابھی بھی موجود ہیں اور عدالتیں ابھی بھی موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ عملدرآمد کا ہے۔‘‘

اور کتنی زینبیں سماجی، سیاسی زبوں حالی کی بھینٹ چڑھیں گی؟

Pakistan Special Report Vergewaltigungen | Polizeistation in Islamabad
اسلام آباد کے ایک پولیس اسٹیشن میں ریپ کیسز کی رپورٹنگ کے لیے خصوصی روم بنایا گیا ہے۔تصویر: DW/I. Jabbeen

ڈی ڈبلیو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہیں ملا ۔ تاہم پی پی پی کے سابق رکن قومی اسمبلی چودھری منظور نے ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے پر مشورہ دیا کہ متعلقہ اراکین قومی اسمبلی سے رابطہ کیا جائے۔ پی پی پی کے رکن اسمبلی امیر علی خان مگسی کا کہنا تھا کہ کیونکہ انہوں نے اس بارے میں بالکل پڑھا نہیں تو اس لیے وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے۔

عبدالستار/  ک م