1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موٹروے زیادتی کیس: مجرموں کو موت کی سزا

20 مارچ 2021

سانحہ موٹروے کیس کے ملزموں کو موت کی سزا سنائے جانے پر سول سوسائٹی کے کچھ حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ عورتوں سے زیادتی کے باقی مقدمات میں ریاست کا رویہ کب بدلے گا؟

https://p.dw.com/p/3qucW
Pakistan Protest gegen Vergewaltigungsfall auf der Autobahn
تصویر: DW/T. Shahzad

لاہور کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ہفتے کی شام موٹروے زیادتی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اس واقعے میں ملوث مجرموں عابد ملہی اور شفقت علی کو سزائے موت سنائی ہے۔اپنے فیصلے میں عدالت نے دونوں مجرموں کو اغوا، ڈکیتی اور دیگر الزامات ثابت ہونے پر 14 سال قید اور 50، 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی ہے۔ عدالت نے ملزمان کی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادیں بحق سرکار ضبط کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ارشد حسین بھٹہ نے کیمپ جیل لاہور میں قائم کی گئی خصوصی عدالت میں موٹروے زیادتی کیس کا جب فیصلہ سنایا تو اس وقت کمرہ عدالت میں دونوں مجرمان موجود تھے۔ اس موقعے پر کمرہ عدالت کے باہر اور کیمپ جیل کے آس پاس سخت ترین حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ ان علاقوں میں مسلح پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات کی گئی تھی۔ جبکہ کیمپ جیل کے باہر فیروز پور روڈ کے ایک حصے کو بھی ٹریفک کے ليے بند کر دیا گیا تھا۔

موٹر وے زیادتی کیس: جرائم کو فروغ دینے والا نظام کب بدلے گا؟

اس فیصلے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز قانون دان آفتاب باجوہ نے بتایا کہ اس کیس میں نہ صرف جلد فیصلہ سنایا گیا ہے بلکہ تمام قانونی تقاضے پورے کئے گئے ہیں اور ملزم کو صفائے کا پورا موقعہ فراہم کیا گیا ہے۔ ان کے خیال میں اس کیس میں ملزمان کے خلاف شواہد بہت مضبوط ہیں، متاثرہ خاتون نے ملزمان کو شناخت بھی کر لیا تھا اور ڈی این اے بھی میچ کر گیا ہے اس ليے اعلی عدالتوں میں ملزموں کے بچ نکلنے کے امکانات نہیں ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے عورت فاونڈیشن پاکستان کی ڈائریکٹر پروگرامنگ نے بتایا کہ اجتماعی زیادتی کے ملزمان کو سزا کا ملنا خوش آئند تو ہے اور اس کا کچھ نہ کچھ اثر بھی ضرور ہو گا لیکن صرف ایک کیس میں سزا ملنے سے معاشرے سے عورتوں کے خلاف ایسے جرائم کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

Pakistan I Protest gegen Gewalt an Frauen
پاکستان میں ہر عمر کی خواتین ، عورتوں کے ساتھ زیادتی کے خلاف آواز بلند کرتی دکھائی دیتی ہیں۔تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

ممتاز مغل کو یقین نہیں ہے کہ اس سزا پر پوری طرح عمل ہو بھی سکے گا یا نہیں کیونکہ ابھی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کے مراحل باقی ہیں، پاکستان نے جی ایس پی پلس کے معاہدے پر دستخط بھی کر رکھے ہیں اور پاکستان میں سول سوسائٹی کے بعض حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ موت کی سزا سے جرائم کے مکمل خاتمے کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔

ممتاز مغل نے بتایا کہ زینب کیس میں مجرم کو سزائے موت دئیے جانے کے بعد بھی ریپ کے سینکڑوں کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست ملک میں ایسا ماحول بنائے جس میں عورتوں کے خلاف جرائم میں کمی آئے اس کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کو بدلنا ہوگا، نوجوانوں کے لیے روزگار اور تفریح کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے اور والدین اور اساتذہ سمیت پورے معاشرے کو سرگرمی کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

موٹر وے گینگ ریپ: پیمرا کی طرف سے رپورٹنگ پر پابندی کی مذمت

 

سول سوسائٹی نیٹ ورک پاکستان کے سربراہ عبدللہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اصل سوال یہ ہے کہ سانحہ موٹروے کے موقعے پر موٹروے پولیس ، اداروں میں کورڈینیشن اور انتظامیہ کی کارکردگی کے حوالے سے جو خامیاں سامنے آئیں تھیں کیا ہم نے ان سے سبق سیکھ کر انہیں درست کر لیا ہے۔ ان کے خیال میں جب تک پولیس، پراسیکیوشن اور تفتیش کے علاوہ عدالتی نظام میں بہتری نہیں آتی ایسے جرائم ختم نہیں ہوں گے۔ صرف ایک کیس کی بجائے معاشرے کو ہر کیس کو اسی طرح ٹریٹ کرنا چاہیے۔

Women's March in Pakistan
ہر مکتبہ فکر اور ہر سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی پاکستانی عورتیں معاشرے میں انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed

اس کیس میں ملزمان کے خلاف تھانہ گجرپورہ میں دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ لیکن اس کیس کی غیر معمولی اہمیت کی وجہ سےملزمان کا جیل میں ہی ٹرائل کیا گیا۔ اس کیس میں 40 گواہان کے بیانات قلم بند کیے گئے۔عدالت نے 3 مارچ کو دونوں مرکزی ملزمان عابد ملہی اور شفقت علی پر فرد جرم عائد کردی تھی جبکہ ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

خیال رہے کہ 9 ستمبر 2020 ء کو لاہور- سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک تیس سالہ خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں پٹرول ختم ہو جانے کی وجہ سے گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔

موٹر وے زیادتی کیس: کیا چیف جسٹس کی تشویش کافی ہے؟

 

 

تنویر شہزاد۔ لاہور