1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رمضان ختم، پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد بحال

عاطف بلوچ27 جولائی 2015

پاکستان میں ماہ رمضان کے دوران سزائے موت پر عملدرآمد پر عائد عارضی پابندی ختم ہونے کے بعد دو مجرمان کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ہے۔ دونوں مجرموں کو ملتان کی سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی۔

https://p.dw.com/p/1G56Z
تصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ قتل کے جرم میں سزا پانے والے فاروق الیاس فاروقہ اور کریم نواز کو ستائیس جولائی پیر کے دن پھانسی دے دی گئی۔ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد ایک ماہ کے لیے روک دیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے یہ پابندی ختم ہو گئی تھی، جس کے بعد آج ان دو مجرموں کو پھانسی دے دی گئی۔

صوبہ پنجاب میں قیدیوں کے امور سے متعلق ایک اعلٰی حکومتی اہلکار چوہدری ارشاد سعید نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’فاروق الیاس فاروقہ اور کریم نواز کو قتل کے مختلف واقعات میں مجرم ثابت ہو جانے کے بعد سزائے موت سنائی گئی تھی۔ انہیں آج پیر کی صبح ملتان سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ رمضان کی وجہ سے ان کی سزا پر عملدرآمد ایک ماہ کے لیے مؤخر کر دیا گیا تھا۔

پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق ان دو مجرموں کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد گزشتہ دسمبر سے اب تک مجموعی طور پر 176 مجرمان کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جا چکا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ حکومت پاکستان نے پشاور کے ایک اسکول پر دہشت گردانہ حملے کے بعد گزشتہ برس دسمبر میں ملک میں سزائے موت دیے جانے پرعائد چھ سالہ پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا، جس کے بعد سزائے موت کا عدالتی حکم پانے والے مجرمان کی سزاؤں پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا تھا۔

پاکستان میں آٹھ ماہ قبل جب سزائے موت پر عملدرآمد پر عائد پابندی ختم کی گئی تھی تو ابتدا میں صرف دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والے مجرمان کی سزاؤں پر عملدرآمد کیا گیا تھا تاہم اس سال مارچ میں ایسے تمام مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا تھا، جنہیں عدالتوں نے پھانسی کا حکم سنایا تھا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انصاف کی فراہمی کے نظام میں پولیس کی طرف سے تشدد اور مناسب قانونی مدد کی عدم موجودگی کے باعث کئی ملزمان شفاف عدالتی کارروائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال سزائے موت پانے والا مجرم شفقت حسین بھی ہے۔ اس مجرم کے وکلاء اور اہل خانہ کا کہنا ہے کہ جب اسے سزائے موت کا حکم سنایا گیا تھا، تو اس کی عمر اٹھارہ برس سے کم تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے اعتراف جرم کروانے کے لیے پولیس کی حراست میں اس پر تشدد بھی کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں اس نے اقبال جرم کر لیا تھا۔

Pakistan Eltern von Shafqat Hussain Todeskandidat
شفقت حسین کے والدین اپنے بیٹے کی تصویر کے ساتھتصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum

شفقت حسین کے کیس کو عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل ہوئی جبکہ انسانی حقوق کے اداروں نے زور دیا کہ اس مجرم کے کیس کو دوبارہ سے پرکھا جائے۔ یورپی یونین، امریکا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سزائے موت دیے جانے پر دوبارہ پابندی عائد کی جانا چاہیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں آٹھ ہزار قیدی سزائے موت کے انتظار میں ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کی اپیلیں مسترد کی جا چکی ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید