1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دیکھنا ہے کہ نثار صدیقی نے وفات پائی یا ’قتل‘ کیے گئے

29 جولائی 2020

سکھر کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جنم لینے والے ایک استاد کا کہنا تھا، ’’ہر آج میں ہمیں بہتر کل کا خواب دیکھنا چاہیے۔‘‘ خواب دیکھنے والا یہ استاد آگے چل کر ماہرِ تعلیم بنا اور پھر اسی خواب سےآئی بی اے سکھر نے جنم لیا۔

https://p.dw.com/p/3g6GJ
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

وقت حاضر میں ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں اب اس کا شمار ہوتا ہے۔ نثار احمد صدیقی بتاتے تھے کہ جب وہ صنعتی سائٹ میں تھے تو نوجوان لڑکے ڈگریوں لے کر ان کے پاس نوکریوں کے لیے آتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے حوالے سے ان کو انٹرویو کے لیے تو بلا لیا جاتا تھا لیکن انٹرویو پاس نہیں کر پاتے تھے۔ اپنی اس ناکامی کی وجہ وہ اپنے سندھی ہونے کو قرار دیتے تھے۔ ممکن ہے کہ یہ بھی ایک وجہ ہو لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ کارپوریٹ سیکٹر میں ان نوجوانوں کی نااہلی تھی۔ پھر اس میں قصور ہمارے نوجوانوں کا نہیں ہے بلکہ بنیادی مسئلہ معیاری تعلیم کی فراہمی سے محرومی ہے۔

نثار احمد صدیقی نے یونیورسٹی آف سندھ سے پہلے معیشت اور پھر ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا۔ سرکاری ملازمت سے کچھ فرصت پا کر وہ بوسٹن یونیورسٹی میں ایم بی اے فائنانس کے لیے داخل ہو گئے۔

نثار احمد صدیقی نے آئی بی اے سکھر کی بنیاد سال 1994ء میں سکھر پبلک سکول کے دو کلاس رومز میں رکھی۔ آغاز میں یہ یونیورسٹی آئی بی اے کراچی کے زیر انتظام چلتی رہی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ خود مختار جامعہ بن گئی۔ ادارے کی نئی بلڈنگ بنی تو سکھر پبلک سکول کو آئی بی اے سکھر نے بطور کمیونٹی سکول اپنا لیا۔

سال 2013 میں سندھ کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق اپنے آبائی علاقے دادو میں زیبسٹ یونیورسٹی کی شاخ کھلوانا چاہتے تھے۔ نثار احمد صدیقی کے کہنے پر وہ سارا بجٹ وہاں ایک کمیونٹی سکول بنانے میں لگایا گیا اور بعد میں وہاں کے گریجویٹس کو آئی بی اے سکھر میں داخلہ دیا گیا۔ صوبہ سندھ میں ان سات سالوں میں یکے بعد دیگرے 40 کمیونیٹی سکول تشکیل دیے گئے۔ ان میں سے کچھ پبلک سکول تھے، جو ادارے نے اپنائے اور دیگر سرکاری زمین پر بنائے گئے۔

یہ بھی پڑھیے:

شہر خموشاں سے فقیرو کی صدا

مہدی حسن جن کا تھا، وہ لے گئے

یہ کمیونٹی سکول اور کالج امریکن کمیونٹی سکولز کے طرز پر بنائے گئے ہیں، جن کا امتیاز یہ ہے کہ وہ خودکفیل ہیں۔ نہ تو یہ سرکاری سکول ہیں اور نہ ہی پرائیویٹ، یہ سکول اپنے وسائل خود جنریٹ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور ان کے اپنے بورڈ آف گورنرز ہوتے ہیں، جس میں ماہرینِ تعلیم اور سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ والدین بھی قدم بہ قدم شامل ہوتے ہیں۔

یہ کمیونٹی سکولز تین امتحاناتی بورڈز سے منسلک ہیں، جن میں کیمبرج بورڈ، آغا خان بورڈ اور سکھر بورڈ شامل ہیں۔ سال 2014 میں ادارے نے سکھر بورڈ کے ساتھ مل کر 'نو چیٹنگ' کی مہم چلائی۔ اس مہم میں ادارے نے رضاکارانہ طور پر اپنے وسائل کا استعمال کیا اور 2019 یعنی چھ سال بعد 30 سے زائد سکول اس مہم میں شامل ہوگئے۔

سابق وزیر تعلیم احسن اقبال کمیونٹی اسکول کے اس ماڈل سے اچھے خاصے متاثر تھے اور اسی ماڈل سے متاثر ہو کر ایچ ای سی نے اپنے 2025 تک کے اہداف میں 25 کمیونٹی کالجز کو بھی شامل کیا۔
نثار صدیقی نے دراصل اس حقیقت کو جان لیا تھا کہ تبدیلی اپنے آپ میں ایک پورا ارتقائی عمل ہے، جو وقت، حالات اور وسائل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے سندھ کے پرائمری اور سیکنڈری سکول کو فروغ دیا اور کمیونٹی سکولز کا ماڈل متعارف کروایا۔

 وہ جان گئے تھے کہ تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنی ابتدائی تعلیم کو بہتر بنانے کی کوئی سبیل کریں۔

وبا کے ان دنوں میں ہم نے جہاں اور بڑے بڑے اہلِ علم، ادیبوں، دانشوروں اور سماجی رہنماوں کو کھو دیا ہے، وہاں نثار احمد صدیقی جیسا ماہرِ تعلیم اور رضاکار بھی ہم نے کھو دیا ہے۔ نثار صاحب نے اپنی پوری زندگی اپنے آبائی وطن کی درس گاہوں کو بہتر بنانے کے واسطے وقف کر دی تھی۔ یوں کہہ لیں کہ اپنی زمین پر انہوں نے خود کو نثار کر دیا تھا۔ انتقال کے وقت تک بھی وہ آئی بی اے سکھر کے وائس چانسلر کی حیثیت سے تعلیمی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔

فرد کی اہمیت تب بڑھتی ہے، جب ادارے اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں۔ نثار احمد صدیقی وہ انسان تھے، جو اپنی ذات میں ہی ادارہ بن کر سامنے آ گئے۔ اب اگر یہ ادارہ ہماری غفلت کا شکار ہوا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نثار صدیقی نے وفات نہیں پائی بلکہ وہ 'قتل‘ کیے گئے۔

نثار احمد صدیقی (1994-2020)

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26