دیر اور چترال پاکستان کے خوبصورت اضلاع
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے اضلاع دیر اور چترال دلکش قدرتی مناظر کے حامل ہیں۔ یہ علاقے بین الاقوامی سیاحوں کے لیے بھی کشش کا باعث ہیں تاہم اس کے لیے حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے۔
دیر کے لوگ محنتی اور جفاکش
دیر کے لوگ محنتی اور جفاکش ہیں۔ یہاں کے مقامی افراد پہاڑوں میں چھوٹے چھوٹے کھیتوں میں کاشت کاری کرتے ہیں۔ یہ دلکش مناظر دیر بالاکے علاقے واڑی کے ہیں۔ لواری ٹاپ سے دیر کے خوبصورت مناظر کی ایک جھلک اس تصویر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ سڑک کی تعمیر پر کام جاری ہے جس کی وجہ سے کافی زیادہ درختوں کی کٹائی بھی کی گئی ہے۔
لکڑی کا بنا پل
اگر چہ سڑک پر تعمیراتی کام ہو رہا ہے لیکن دیر کے علاقہ میں پہاڑ سے بہتے ہوئے پانی پر یہ لکڑی سے بنا پل سالوں پرانا ہے۔ اس پل کے مالک کو اس سے روزانہ دو سے تین ہزار روپے کی کمائی ہو جاتی ہے۔
سڑک کے تعمیر کے لیے کاٹے گئے درخت
سڑک کے تعمیر کے دوران ستائیس ہزار فٹ تک لگے درختوں کو کاٹا جاچکا ہے۔ ایک مقامی تاجر کے مطابق اس تصویر میں نظر آنے والی لکڑی ایک کروڑ سات لاکھ روپے مالیت کی ہے۔
لواری ٹنل
لواری ٹنل تقریباً آٹھ کلومیڑ لمبا ہے اور اس کی تعمیر پر 27 ارب روپے کی لاگت آئی ہے۔ یہ ٹنل ضلع دیر کو چترال سے ملاتا ہے۔ سی پیک کی وجہ سے اس ٹنل کی اہمیت زیادہ ہو گئی ہے۔ لواری ٹنل کی تعمیر سے مسافر اب تین سے چار گھنٹے کا سفر کم کرتے ہیں۔
وسطی ایشیا اور پاکستان کے مابین واحد زمینی راستہ
ٹنل سے ضلع چترال پہنچا جاتا ہے۔ چترال ہندوکش کے دامن میں واقع ہے۔ اس کا شمار پاکستان کے پسماندہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ یہ وسطی ایشیاء کو پاکستان سے ملانے والا واحد زمینی علاقہ ہے۔
چترال میں جنگلات کی کٹائی
جنگلات کی کٹائی زوروں سے جاری ہیں۔ یہ لکڑیاں زیادہ تر آگ جلانے کے لیے استعمال ہوتی کی جاتی ہیں۔ چترال جو کہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا ضلع ہے، وہاں ابھی تک گیس کی سہولت موجود نہیں۔
سیاحوں کے لیے جیپ اچھی سواری
وادی بمبوریت جانے کے لیے جیپ پر سواری کی جاتی ہے۔ میلے کے دوران جیپ کا روزانہ کرایہ دس ہزار روپے تک بڑھ جاتا ہے جو کہ عام دنوں میں ایک ہزار یا پندرہ سو روپے ہوتا ہے۔
کیلاشیوں کا قبرستان
کیلاش قبیلے کے لوگ اپنے مردوں کو دفناتے نہیں ہیں۔ وہ لاشوں کو تابوتوں میں رکھتے ہیں۔ لیکن اب چند سال سے ان لوگوں نے بھی مردوں کو دفنانا شروع کر دیا ہے۔ بعض بزرگ افراد نے اپنی اولاد کو وصیت کی ہے کہ ان کی وفات کے بعد انہیں دفنایا نہ جائے۔ اس قبرستان کو دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔
چلم جوشٹ میلہ
کیلاش میں چلم جوشٹ میلے کے آخری روز قبیلے کے مرد اور خواتین ایک ساتھ رقص کرتے ہیں۔ موسیقی اور ناچنا ان کے مذہب کا حصہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کیلاش قبیلے کے صرف سات ہزار افراد باقی رہ گئے ہیں۔ یہ کلچر، مقامی لوگ اور ان کی رسومات آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔