دہشت گردی کے خلاف جنگ: توجّہ کا مرکز پاکستان
26 ستمبر 2008یہ اہمیت پاکستان کے مفاد میں ہے یا اس کے لیے باعثِ تشویش، یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے، مگر بعض حلقوں کی رائے میں کچھ حد تک افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی میں تبدیلی کے پاکستان پر منفی اثرات سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد کے فائو اسٹار ہوٹل میریٹ میں خوفناک خود کش حملہ ان حلقوں کی رائے میں اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔
بعض امریکی تھنک ٹینکس، دفاعی امور کے ماہرین، سیاستدان اور یہاں تک کے ریٹائرڈ اور حاضر جرنیل یہ بات تواتر کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے شِمال مغربی صوبہِ سرحد کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی کا خاتمہ کیے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں پاکستان کی نو منتخب جمہوری حکومت نے ان علاقوں میں طالبان عسکریت کا خاتمہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے وہاں امریکی حکومت خود بھی اس مسئلے پر پاکستانی حکومت کی مدد کرنے کی خواہاں دکھائی دیتی ہے۔ مگر دوسری جانب افغانستان سے ملحق پاکستانی سرحد کے اندر مبینہ امریکی فضائی اور زمینی حملے کیا پاکستان کی نئی حکومت کی مدد کررہے ہیں یا پھر اس کی داخلی مشکلات میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے؟
امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ امریکہ عسکریت پسندوں کا تعاقب کرنے کا مجاز ہے اور اقوامِ متحدہ ’ہاٹ پرسوٹ‘ کی اجازت دیتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی فوج اور سولین حکومت کے اعلیٰ عہدیدار کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے کی وہ امریکہ کو بھی اجازت نہیں دے سکتے۔ غیر مصدقّہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز افغان سرحد کے قریب پاکستانی فوجیوں نے مبینہ طور پر پاکستانی سرحد میں داخل ہونے والے امریکی ہیلی کاپٹروں پر فائرنگ بھی کی۔ اس پوری صورتِ حال میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب داخلی طور پر بھی پاکستان کو جہاں عسکریت پسندوں سے خطرہ ہے وہاں عام افراد بھی امریکہ کی پاکستان کے اندر مبینہ کارروائیوں سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے باشندے تو اس صورتِ حال سے سخت بد دل بھی ہیں اور مسائل کا شکار بھی۔ لاکھوں کی تعداد میں ان علاقوں سے افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور پشاور کے مضافات میں یہ افراد انتہائی مشکل سے گزر بسر کررہے ہیں۔ بعض پاکستانی اور بین الاقوامی غیر سرکاری اداروں کا موقف ہے کہ اگر ان افراد کی حالتِ زار پر توجّہ نہ دی گئی تو یہ نہ صرف یہ کہ جرائم کی طرف راغب ہوسکتے ہیں بلکہ بعض تو عسکریت پسندوں کا ساتھ دینے پر بھی راضی ہو سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اسّی کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد اور نوّے کی دہائی میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد ہوا تھا۔
پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے افراد سمجھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو خارجہ پالیسی پر بالعموم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر بالخصوص قومی سطح پر مشاورت کرنی چاہیے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اکھٹّا کرکے کسی ایک پالیسی کو اپنانا چاہیے۔ مختلف سطحوں پر مختلف پالیسیوں کا پاکستان متحمّل نہیں ہوسکتا ورنہ بعض بین الاقولامی اور پاکستانی مبصّر تو پاکستان کو اگلا عراق تک قرار دے چکے ہیں۔