1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردوں کی مبینہ مالی مدد، پاکستان پردباؤ

عبدالستار، اسلام آباد
14 فروری 2018

امریکا اور برطانیہ کی طرف سے پاکستان کا نام دہشت گردوں کی مالی مدد کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ میں رکھنے کی کوشش کی خبروں کو پاکستان میں کئی ماہرین پریشان کن قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2shI2
Pakistan Protest gegen Drohenangriffe der USA
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

پاکستان پر بھارت اور امریکا سمیت دنیا کے کچھ ممالک کا دباؤ ہے کہ وہ دہشت گرد گروہ ، جیسا کہ جیشِ محمد، جماعت الدعوہ، حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کی حمایت ترک کریں۔ پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے کہ وہ کسی دہشت گرد گروپ کی کسی بھی طرح سے مد د کر رہا ہے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ میں خبر رساں ایجنسی روئٹر کی یہ خبر آج بروز بدھ  توجہ کا مرکز رہی کہ امریکا اور برطانیہ جرمنی اور فرانس کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام آباد کو اس واچ لسٹ میں شامل کیا جائے، جو ایسے ممالک پر نظر رکھتی ہے، جن پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کا الزام ہو۔

افغانستان میں امریکی جنگی اخراجات پر پاکستانی ماہرین کی تنقید

تین پاکستانی ’دہشت گردوں کی فہرست‘ میں شامل

طالبان سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی، ٹرمپ

دہشت گردوں کے ’محفوظ ٹھکانے‘ ختم کر دیے جائیں گے، ہلینا وائٹ

عالمی مالیاتی اداروں کے کئی پروجیکٹس پر کام کرنے کا تجربہ رکھنے والے ڈویلپمنٹ کنسٹلنٹ عامر حسین کے خیال میں، ’’ یہ خبر پاکستان اور خطے کے موجودہ حالات میں ہمارے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ ملک شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ ہمارا بجٹ بھی خسارے میں چل رہا ہے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہمیں پیسہ بھی چاہیے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ ملک کی مالی صورتِ حال کے پیشِ نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں کچھ مہینوں میں عالمی مالیاتی اداروں کے پاس جانا پڑ سکتا ہے۔ ان اداروں پر امریکا کا بہت اثر رسوخ ہے۔ وہ افغانستان میں اپنی ناکامی پر چراغ پا ہے اور اگر پاکستان کا نام اس واچ لسٹ میں شامل کر دیا جاتا ہے، تو پاکستان کے لیے کوئی قرضہ لینا آسان نہیں ہوگا۔‘‘

عامر کا کہنا تھا کہ بیرونی سرمایہ کاری بھی اس سے متاثر ہوسکتی ہے،’’اگر خدا نخواستہ پاکستان کو اس واچ لسٹ میں رکھا جاتا ہے تو مغربی میڈیا اس کو بڑھا چڑھا کے پیش کرے گا۔ موجودہ دور میں تاثر بعض اوقات حقیقت سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ یورپی یا چاپانی سرمایہ کار امریکا کو ناراض نہیں کرتے۔ تو میرے خیال میں ایسی صورت میں وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے کترائیں گے جب کہ چین ہمیں بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے پیسے نہیں دے گا کیونکہ وہ انفرا اسٹرکچر کے پروجیکٹس میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔‘‘

سابق سفیر برائے ایران فوزیہ نسرین کے خیال میں موجودہ عالمی حالات میں یہ خبر تشویش ناک ہوسکتی ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ٹرمپ کی امریکا میں پالیسیوں میں بڑی تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اور بعض اوقات پیشن گوئی کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ پاکستان پر پہلے ہی بہت دباؤ ہے اور اگر ہمارا نام اس واچ لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے، تو اس سے ہماری مشکلات بڑھیں گیں ۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں فوزیہ نسرین نے کہا، ’’پاکستان کو پہلے بھی ایسی ایک لسٹ میں رکھا گیا تھا لیکن اس وقت حالات مخلتف تھے۔ امریکا میں اوباما تھا، جس نے تمام دباؤ کے باوجود ایران سے معاہدہ کیا اور پاکستان کے خلاف سخت لائن نہیں لی۔ اب ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی چین، روس اور ایران سے بڑھتی ہوئی قربت کو منفی انداز میں دیکھ رہی ہے۔ کیونکہ روس نے مشرقِ وسطی میں امریکی پالیسیوں کی سخت مخالفت کی ہے، اسی لیے واشنگٹن اس بات پر ناراض ہے کہ ہم روس و چین سے تعلقات بہتر کر رہے ہیں۔‘‘

تاہم پاکستان کے سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود خان کے خیال میں اس صورتِ حال سے پریشان ہونے کی ضرور ت نہیں ہے، ’’میرے خیال میں ہم نے اپنے کیس کو بہتر طور پر پیش کیا ہے۔ تو کوئی امکان نہیں کہ ہمارا نام اس واچ لسٹ میں شامل کیا جائے۔ یہ سب کچھ صرف بھارت کو خوش کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن اگر ہمیں اس واچ لسٹ میں شامل کر بھی لیا جاتا ہے تو اس سے ہمارے لیے مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔ ہمیں دو ہزار بارہ میں بھی شامل کیا گیا تھا لیکن دو ہزار چودہ میں ہمیں اس لسٹ سے نکال دیا گیا۔‘‘