1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا کا ہر پانچواں بچہ مسلح تنازعے میں پرورش پا رہا ہے

20 نومبر 2020

سیو دا چلڈرن کے مطابق دنیا کا تقریباً ہر پانچواں بچہ مسلح تنازعے کے سائے میں پرورش حاصل کر رہا ہے۔ اس تنظيم کا مطالبہ ہے کہ عالمی برادری آتشيں اسلحے کی تجارت پر پابندی عائد کرے۔

https://p.dw.com/p/3lbHf
Save the Children Pressebild | Jemen-Krieg
تصویر: Save the Children/Sami Jassar

بچوں کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ’سیو دا چلڈرن‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس قريب 426 ملین لڑکیاں اور لڑکے اپنے آبائی علاقوں ميں جاری مسلح تنازعات سے متاثر ہوئے۔ سن 2018 میں ایسے بچوں کی تعداد 415 ملین تھی۔

بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم کی جانب سے ’بچوں کے خلاف جنگ‘ کے عنوان سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں بچوں کے لیے سب سے خطرناک ممالک افغانستان، کانگو، عراق، یمن، مالی، نائیجیریا، صومالیہ، سوڈان، جنوبی سوڈان اور شام بتائے گئے ہیں۔ ان ممالک ميں قریب 160 ملین بچے تنازعات کی زد ميں بڑے ہور ہے ہیں۔

بچوں کا عالمی دن - کینیا میں اسکول جاتے بچے۔
جنگ و تنازعے سے دوچار ممالک میں بڑے ہوتے بچےتصویر: Thomas Mukoya/Reuters

سیو دا چلڈرن کی چیئرمن سوزانے کروگر نے کہا ہے کہ ’بچوں کے خلاف جنگ‘ کو روکنا ضروری ہے۔ ان کے بقول، ’’لڑکیوں اور لڑکوں کی پرورش سلامتی اور امن کے ماحول میں ہونی چاہیے۔‘‘

آتشيں اسلحے کا نشانہ بننے والے بچے

20 نومبر بچوں کے حقوق کا عالمی دن ہے۔ یہ دن ہر سال اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ پوری دنیا میں بچوں کے حقوق کو کس طرح کے خطرات لاحق ہیں۔

مزید پڑھیے: جسمانی اور نفسیاتی اذیتوں میں قید غیر محفوظ بچے

سیو دا چلڈرن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے عرصے میں دنیا بھر میں مجموعی طور پر 93000 کے قریب بچے قتل و غارت کا شکار ہو چکے ہیں۔ یعنی جنگ سے دوچار علاقوں میں ہر روز اوسطاً 25 بچے ہلاک ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ان بچوں کی مجموعی تعداد 10300 بتائی گئی تھی۔ ان میں سے ایک تہائی سے زیادہ بچے آتشيں اسلحے جیسے کہ راکٹ، دستی بم، بارودی سرنگوں اور کلسٹر بموں کا نشانہ بنے۔

افغانستان میں بندوق کے کھلونے سے کھیلتے بچے
جنگ سے دوچار علاقوں میں ہر روز اوسطاً 25 بچے ہلاک ہوتے ہیں۔تصویر: DW/F. Zahir

لہٰذا سیو دا چلڈرن تنظیم نے عالمی برادری سے  آتشيں اسلحے کی تجارت پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بچوں کے خلاف سنگین جرائم

علاوہ ازیں تنازعات سے دوچار علاقوں میں بچوں کے خلاف سنگین جرائم کی تعداد میں بھی نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے، جس میں خاص طور پر بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا: بیس لاکھ بچے موت کے منہ میں جا سکتے ہیں

اقوام متحدہ کی تعریف کے مطابق بچوں کے خلاف سنگین جرائم میں قتل و غارت، جنگجوؤں کی حیثیت سے بھرتی، اغواء، اسکولوں اور ہسپتالوں پر حملے، انسانی امداد تک رسائی سے انکار اور بچوں پر جنسی تشدد شامل ہیں۔ سن 2005 کے بعد سے اب تک اس طرح کی ڈھائی لاکھ سے زیادہ وارداتیں ریکارڈ کی گئ ہیں۔

ع آ / ع س (کے این اے، اے ایف پی)

جب کووڈ انيس نے دس سالہ لورينزو سے اس کے دادا کو چھين ليا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں