1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’دس برس سے پاکستان کی دوغلی پالیسی پر تنقید کر رہا ہوں‘

امان اظہر، واشنگٹن
5 اگست 2021

سابق کینیڈین سفارت کار کرس الیگزانڈر کے بقول اس بار پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان کی ٹوئیٹ پر ردعمل اس لیے دیا کیونکہ طالبان جنگجوؤں کی تصویر جو انہوں نے شیئر کی تھی وہ حقیقت پر مبنی تھی۔

https://p.dw.com/p/3yZgW
کرس الیگزانڈرتصویر: Reuters/C. Wattie

افغانستان میں طالبان کی بڑھتی جارحیت کی وجہ سے جہاں اس جنگ زدہ ملک میں امن عمل کی افادیت اور امریکی ترجیحات کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں، وہیں پاکستان پر طالبان کی سرپرستی جاری رکھنے کے دعووں نے بھی زور پکڑا ہے۔

ایک جانب اعلیٰ افغان حکومتی عہدیدار مسلسل پاکستان پر دوغلی پالیسی اور درپردہ طالبان کی حمایت جاری رکھنے کا الزام عائد کر رہے ہیں تو دوسری جانب بعض غیر ملکی مبصرین نے بھی اسلام آباد پر طالبان کی پشت پناہی کے دعوے کی تائید کی ہے۔

اس کی ایک مثال سابق کینیڈین سفارت کار کرس الیگزانڈر ہیں جو سال 2003ء سے 2005ء تک افغانستان میں کینیڈا کے سفیر کے طور پر تعینات رہنے کے فوری بعد افغانستان ہی میں اقوام متحدہ کے معاون مشن کے نائب خصوصی نمائندے کے طور پر 2009ء تک فرائض نبھاتے رہے۔

کرس الیگزانڈر گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل ٹوئیٹر پر پاکستان پر افغانستان میں امن عمل کو سبوتاژ کرنے سمیت طالبان کی فوجی اور مالی معاونت کرنے جیسے الزامات پر مبنی ٹوئیٹس کر رہے ہیں۔ چند روز پہلے سابق کینیڈین سفارت کار کی جانب سے ایک تصویرٹویٹ کی گئی جس میں درجنوں جنگجوؤں کو جنگلے کے پار بیٹھا دیکھا جا سکتا ہے۔

کرس کی ٹویٹ میں کہا گیا کہ یہ تصویر ان طالبان جنگجوؤں کی ہے جو پاکستان سے افغانستان سرحد پار کرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اگر اب بھی کوئی اس بات سے انکار کرتا ہے کہ پاکستان افغانستان کے خلاف 'جارحیت کے عمل‘ میں مصروف نہیں ہے تو وہ اس پراکسی جنگ اور جنگی جرائم میں ملوث ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے بیان جاری کرتے ہوئے سخت الفاظ میں سابق سفارت کار کرس الیگزانڈر  کے اس دعوے کو مسترد کیا اور کینیڈین حکام کے ساتھ اس معاملے کو اٹھانے کا عزم بھی کیا۔

کرس الیگزانڈر کینیڈا کے وزیر برائے شہریت اور امیگریشن بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے اور  پاکستان کے دفترِ خارجہ کے درمیان لفظی ٹکراؤ کی صورتحال ایسے وقت سامنے آئی جب پاکستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید امریکی دورے پر واشنگٹن میں موجود ہیں۔

بدھ چار اگست کو واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں امریکی صحافیوں کو اپنے اس دورے سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف کا کہنا تھا کہ امن کے لیے تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان پر افغان دھڑوں کی جانب سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے ۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پاکستان کے بارے میں ایک منفی تاثر بہرحال موجود ہے جس کی تاریخی وجوہات ہیں۔

USA Moeed Yusuf 2011
نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف کے مطابق امن کے لیے تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان پر افغان دھڑوں کی جانب سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔تصویر: Getty Images/AFP/A. Wong

ڈی ڈبلیو نے جب سابق کینیڈین سفارت کار کرس الیگزانڈر سے ان کی ٹوئیٹ کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 10 سال سے بھی زیادہ عرصے سے پاکستان کی 'دوغلی افغان پالیسی‘ پر تنقید کر رہے۔

کرس کے بقول اس بار پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان کی ٹوئیٹ پر ردعمل اس لیے دیا کیونکہ طالبان جنگجوؤں کی تصویر جو انہوں نے شیئر کی تھی وہ حقیقت پر مبنی تھی۔ سابق سفارتکار کے مطابق یہ طالبان جنگجو تھے جو پاکستانی علاقے کُرم ایجنسی سے سرحد پار پکتیا صوبے میں جا رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو تاہم اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کرسکا۔

کرس الیگزانڈر کا مزید کہنا تھا کہ واشنگٹن میں پاکستانی وفد اس ہفتے دوحہ میں طالبان رہنماؤں پر مراعات دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کے وعدے پر توجہ مرکوز کرے گا: ''طالبان کے حالیہ حملوں کے پیش نظر امریکی ہم منصب شکوک و شبہات کا شکار ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ امن عمل اپنے آخری قدموں پر ہے۔‘‘

سابق سفارت کار کے مطابقامریکی انتظامیہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ وہ پاکستان کے ساتھ کیسے روابط رکھنا چاہتی ہے: ''فی الحال پاک امریکا تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے وزیراعظم عمران خان کو فون تک نہیں کیا۔‘‘