1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خوف کے سائے میں کشمیری خواتین قلم کی مشعل لیے

گوہر گیلانی، سری نگر
14 مارچ 2020

گزشتہ برس سے بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں اظہار رائے پر عائد غیر معمولی پابندیوں کے نتیجے میں خوف و ہراس کا عالم برقرار ہے لیکن وہاں کی خواتین مصنفین اپنی ادبی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3ZQjf
Award-winning poet Nighat Sahiba
نگہت صاحبہتصویر: Gowhar Geelani

کشمیری خواتین لکھاری اپنی کتابوں، نظموں اور گیتوں کے ذریعے کشمیر کے حالات کی عکاسی کر رہی ہیں۔ ان ادیبوں میں بعض کشمیر میں ہی مقیم ہیں جبکہ دیگر دنیا کے مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ سری نگر میں مقیم حنا خان ایک شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ مترجم بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب گزشتہ برس پانچ اگست کو ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے یکطرفہ اقدام کے تحت متنازعہ جموں و کشمیر کی داخلی خودمختاری اور ریاستی حیثیت ختم کر دی اور اظہار رائے پر قدغنیں لگائیں تو کشمیریوں کے لیے یہ ضروری بن گیا تھا کہ ''وہ کسی طرح زندہ رہیں تاکہ اپنی داستان رقم کر سکیں۔‘‘

انہوں نے ایک نظم لکھی، جو دراصل انٹرنیٹ کی عدم موجودگی، نوجوانوں کی حراست اور اظہار رائے پر پابندیوں کے نتیجے میں عام لوگوں کو درپیش مشکلات اور حالات کا تجزیہ اور تبصرہ ہے۔ ڈوئچے ویلے اُردو سے‘بات چیت میں حنا نے کہا، ''ہم اپنے مصائب اور مشکلات کو بھولے نہیں ہیں بلکہ اب یہ حالات ہی ہماری مستقل یادیں ہیں، جنہیں ہمیں ہر قیمت پر سنبھالنا ہوگا۔‘‘

Award-winning poet Nighat Sahiba
تصویر: Gowhar Geelani

نفسیات دان کہتے ہیں کہ خوف کے عالم میں انسانوں کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں، خوف سے بچنا اور بھاگنا یا اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشمیری خواتین نے خوف سے لڑنے کی ہی ٹھان لی ہے۔

حنا کی ایک اور نظم کشمیر میں مقیم بعض بھارتی فوجیوں کی جانب سے کشمیری خواتین کو بالی وُڈ گیتوں سے تضحیک اور ستانے پر ہے۔

ہر دن اسکول جاتے وقت

 تمہارے مضبوط بنکروں سے

 نامعلوم آوازوں میں

 ان بالی وُڈ گیتوں سے

 ہمیں ستانا، ہمیں یاد ہے

سری نگر سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر فاصلے پر جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ، جسے عام لوگ اسلام آباد بلاتے ہیں، میں سکونت پذیر ایوارڈ یافتہ شاعرہ نگہت صاحبہ بتاتی ہیں کہ پچھلے سات مہینوں میں کشمیر کے حالات نے انہیں یہ احساس دلایا کہ ‘‘ایک لکھاری در اصل بے بس اور کیڑے جیسا معمولی ہوتا ہے۔‘‘ جنوبی کشمیر کے چار اضلاع، اننت ناگ، کلگام، شوپیان اور پلوامہ، میں بھارتی فوجی اہلکاروں اور کشمیری عسکریت پسندوں کے مابین اکثر تصادم ہوتے رہتے ہیں۔

نگہت صاحبہ نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں بتایا کہ پچھلے سال پانچ اگست کے بعد جیسے‘‘ہر ایک کشمیری شہری کو گھر میں ہی نظر بند کیا گیا ہے۔‘‘ اُن کی حالت زار سے اطالوی مصنف پریمو لیوے کی کتاب ''اف دس از اے مین‘‘ میں بیان کیے گئے ایک منظر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ نازی جرمن دور میں ہولوکاسٹ کے دوران مذکورہ اطالوی مصنف کو بھی ایک اذیتی کیمپ میں قید کیا گیا تھا جہاں انہیں پیاس بجھانے کے لیے پانی بھی نہیں دیا گیا تھا۔ انہوں نے شدید ٹھنڈ کے موسم میں باہر کھڑکی سے جمی ہوئی برف کی قلم یخ کو چھونے کی کوشش کی لیکن نازی جرمن افسر نے ان سے وہ بھی چھین لیا۔ جب پریمو نے جرمن زبان میں کیوں ؟ کہا، تو یہ جواب ملا  'یہاں اذیت خانوں میں کیوں کا لفظ نہیں ہوتا۔‘

US based Kashmiri anthropologist, author and poet Ather Zia
شاعرہ اطہر ضیاءتصویر: Gowhar Geelani

نگہت کو ان کی شاعری کی پہلی کتاب 'زرد پتوں کے ڈھیر‘ کے لیے ملیکا سین گپتا ایوارڈ اور ساہیتی اکادمی کا یُوا پُرسکار بھی ملا ہے۔ ان کی شاعری میں رومانس، مزاحمت اور حقوق نسواں جیسے مضامین چھائے ہوئے ہیں۔

سری نگر میں حقوق البشر کی تنظیم جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے اعداد و شمار کے مطابق کشمیر میں بھارتی افواج کی طرف سے گزشتہ تیس برس میں تقریباً آٹھ تا دس ہزار نوجوانوں کو حراست میں ہی گمشدہ کیا گیا ہے۔ حراستی گمشدگی کے انتہائی حساس موضوع پر نگہت نے اپنی ایک نظم میں کچھ یوں لکھا ہے۔

جنہیں گولیوں سے مار دیا گیا

وہ تو قبروں میں ہی موجود ہیں

 لیکن جو ماوٴں کے آنچل تلے نیند میں تھے

 اور پھر غائب کردیے گئے

 وہ کہاں ہیں؟

اسی طرح کشمیری پنڈت گھرانے سے تعلق رکھنے والی مصنفہ، ناول نگار اور ایکیڈیمک نتاشا کول کی حال ہی میں ان کا دوسرا ناول ''فیوچر ٹینس‘‘ منظر عام پر آیا۔ اس سے قبل انہوں نے ''ریزیڈیو‘‘ لکھا تھا، جس کے اہم کردار برلن اور دہلی میں ملتے ہیں۔ لندن میں مقیم نتاشا کول نے ڈوئچے ویلے اُردو سے ای میل کے ذریعے ایک انٹرویو میں کہا کہ ''خواتین کا لکھنا بہت ضروری ہے۔ سماج کے کمزور اور ستائے ہوئے طبقوں پر ان کے نظریات زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔‘‘ اُن کے مطابق کشمیر میں خواتین کی حکایات بہت اہم ہیں اور ان کے قلم کو سنجیدگی سے لینے کی اشد ضرورت ہے۔

اسی طرح امریکا میں مقیم کشمیری شاعرہ اور مصنفہ اطہر ضیاء کی کتاب حراستی گمشدگی کے خلاف مزاحمت، فوجی قبضے اور خواتین کا کردار کے موضوع پر لکھی گئی ہے جبکہ ایک اور کتاب ''اے ڈیسولیشن کالڈ پیس‘‘ انہوں نے اپنے ایک ساتھی مصنف جاوید اقبال بھٹ کے ہمراہ ایڈیٹ کی ہے۔

ان کے مطابق یہ خوش آئند بات ہے کہ کشمیری خواتین ٹھیک اسی طرح مزاحمت کر رہی ہیں، جس طرح کشمیر کی تاریخ میں عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے قلم کا استعمال کر کے اپنی لڑائی لڑی ہے۔

London based Kashmiri novelist Nitasha Kaul 
کشمیری پنڈت گھرانے سے تعلق رکھنے والی مصنفہ، ناول نگار نتاشا کولتصویر: Gowhar Geelani

اطہر نے ڈوئچے ویلے اُردو کو بتایا کہ ''میں لکھنے کے عمل کو مزاحمت کا ایک ہتھیار سمجھتی ہوں۔ کشمیر کی خواتین مصنفین نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر اپنی رائے رکھتی ہیں، بالکل مردوں کے شانہ بشانہ۔‘‘

کشمیر کی خواتین لکھاریوں میں اطہر ضیاء، نتاشا کول، نگہت صاحبہ، حنا خان، مونا بھان، انجم زمرودہ حبیب، ڈاکٹر رومانا مخدومی وغیرہ پیش پیش ہیں۔ اسی طرح پانچ کشمیری لڑکیوں، نتاشا راتھر، سمرین مشتاق، ایثار بتول، افراہ بٹ اور منزہ رشید پر مشتمل ایک گروپ نے انیس سو نوے کے اوائل میں بھارتی فوج کی راج پُتانا رائفلز کی طرف سے شمالی کشمیر کے دو دیہات، کُنن اور پوش پورہ، میں خواتین کی مبینہ طور اجتماعی عصمت ریزی کے موضوع پر ایک کتاب لکھ ڈالی ہے۔ اس کتاب کا نام ہے ''ڈو یو ریممبر کُنن پوش پورہ؟‘‘

علاوہ ازیں رواں ماہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پانچ نامعلوم کشمیری لڑکیوں نے اطالوی اسٹائل پر ایک انقلابی گیت، 'کشمیری بیلا سیو‘ ترتیب دیا، جسے اب یو ٹیوب پر اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ انہوں نے حکومت اور سکیورٹی حکام کی ممکنہ انتقامی کارروائی سے بچنے کے لیے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔

نئی نسل کی خواتین لکھاریوں میں زیادہ تر یا تو طالب علم  یا پیشہ ور ناول نگار، شاعرات اور مصنفین ہیں۔ حالانکہ بھارت مخالف تحریک آزادی کے ساتھ وابستہ ایک خاتون کارکن زمرودہ حبیب نئی دہلی میں قائم تہاڑ جیل میں اپنے اسیری کے ایام پر ایک کتاب  ''تہاڑ میں میرے شب و روز‘‘ لکھی تھی لیکن اب سابقہ بی بی سی براڈکاسٹر اور اب نئی دہلی کی حامی سیاست دان نعیمہ احمد مہجور نے بھی ایک کتاب  ''دہشت زادی‘‘ لکھی ہے۔ جرمن شہر ہائیڈل برگ میں مقیم کشمیری اینتھروپالجسٹ عزما فلک نے فلسطین اور کشمیر پر ایک نظم لکھی ہے جس میں دونوں متنازعہ خطوں کے حالات کا موازنہ کیا گیا ہے۔

کشمیری خواتین مصنفین مختلف چیلنجز کے باوجود آگے آرہی ہیں اور کشمیر کے موجودہ سیاسی اور سماجی حالات پر اپنی آراء کا مختلف طریقوں سے اظہار کر رہی ہیں۔