1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومتی ادارے پشتون تحفظ موومنٹ سے ’خوفزدہ‘ کیوں؟

5 فروری 2019

پی ٹی ايم کے حوالے سے میڈيا کی ’خاموشی اور سخت ریاستی پالیسیوں‘ پر دفاعی تجزيہ کار ريٹائرڈ جنرل امجد شعيب کا کہنا ہے کہ پی ٹی ايم نے ’اينٹی اسٹيٹ اور اينٹی آرمی‘ رويہ اپنا رکھا ہے اور ايسے ہی نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3CmEI
Pakistan Sadiq Zharak in Quetta
تصویر: shal.afghan

امجد شعيب کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’حکومتيں ايسی باتوں کو قبول نہيں کرتیں۔ صوبائی حکومتوں نے خود ان کے جلوسوں پر پابندياں لگائی ہيں، جہاں تک آئی ايس پی آر کی بات ہے تو انہوں نے(يہ معاملہ) حکومت پر چھوڑا ہوا ہے۔ جلسے کرنا ايک سياسی عمل ہے اور سول حکومت خود مختار ہے۔ ان کے جلسوں کی خبريں اخباروں ميں آتی رہتی ہيں۔‘‘

پی ٹی ايم کے پر امن احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے کارکن ارمان لونی کی موت کی وجہ پارٹی پوليس تشدد بتاتی ہے۔ اس بارے ميں جنرل امجد شعيب کا کہنا تھا، ’’جب بھی کسی کو کوئی لاش مل جائے تو وہ اس پر اپنی سياست چمکاتا ہے، يہ بھی یہی کر رہے ہيں۔ صوبائی حکومت تحقيقات کر رہی، تمام چيزيں سامنے آ جائيں گی۔‘‘

 امجد شعيب کی اس بات کے جواب میں پی ٹی ایم کے محسن داور نے ڈی ڈبليو سے خصوصی بات چیت میں کہا، ’’یہ خود ہی اپنی تفتیش بھی کر ليتے ہيں، سپاہی بھی ہیں، منصف بھی ہیں اور واعظ بھی۔ لیکن پھر یہ بتائیں کہ یہ تحقيقات سے کيوں گھبراتے ہيں؟‘‘

ارمان لونی کے دوستوں اور اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ارمان کی گردن کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی اور کان کے پيچھے زخم کے نشان بھی تھے۔ ان کے مطابق ارمان کی موت مبینہ طور پر پوليس اہلکاروں کی طرف سے سر پر بندوق کے بٹ مارنے کی وجہ سے ہوئی۔

Pakistan Protest Pashtun Protection Movement in Lahore
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

پی ٹی ایم کا مسلسل میڈیا بائیکاٹ: پاکستانی میڈیا آزاد؟

دوسری جانب امجد شعيب نے پی ٹی ايم کے مطالبات کو جائز قرار ديتے ہوئے کہا، ’’ان مطالبات پر کام ہو رہا ہے۔ پارليمان ميں ان کی نمائندگی بھی موجود ہے مگر اس معاملے ميں پی ٹی ايم کی بدنيتی نظر آتی ہے کيونکہ یہ معاملات دراصل  فاٹا کے تھے، اس ميں پشتون تحفظ موومنٹ کہاں سے آ گئی؟ اس سے پتہ چلتا ہے کے سوچ کچھ اور ہے اور ڈوری ہلانے والا کوئی اور ہے۔‘‘

اس کے جواب میں ايم اين اے محسن داور کا کہنا تھا، ’’فاٹا ميں کيا پشتون نہيں رہتے؟ یہ منطق سراسر بے بنياد ہے۔ ہم جہاں بھی جلسہ کرتے ہيں وہاں ہمارے لیے گرم جوشی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ يہ کوئی دليل نہيں۔‘‘

پشتون تحفظ موومنٹ لورالائی کے رہنما خوشحال پشتون کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے حقوق کے لیے شروع کی گئی احتجاجی تحریک سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پاکستان میں پشتونوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظورخان پشتین ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ پشتونوں پر ہونے والے ’بدترین مظالم‘ کے خلاف جاری جدوجہد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ریاستی ادارے پشتون تحفظ مومومنٹ پر بے بنیاد الزامات عائد کر کے حقائق مسخ کرنے کی کوشش رہے ہیں۔ ہمیں ایک منظم منصوبے کے تحت ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ظلم کے خلاف انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ریاست پاکستان کے آئین کی رو سے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ہمیں اس حق سے دستبردار کرنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اب پشتون اپنے حقوق کے لیے خاموش نہیں بیٹھیں گے۔‘‘