1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت مخالف مظاہرے: فیس بک پر مظاہرین کے حامی بھی گرفتار

4 نومبر 2019

سوشل میڈیا نے جہاں بہت سے معاشروں میں عوام کو اظہار رائے کی نئی آزادی دی ہے، تو ساتھ ہی کئی ممالک میں انہیں اس آزادی کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑ رہی ہے۔ اس بارے میں ہیومن رائٹس واچ کے بیان کردہ حقائق بہت پریشان کن ہیں۔

https://p.dw.com/p/3SRgC
تصویر: Reuters/D. Ruvic

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے آج پیر چار نومبر کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ عراق میں جو حکومت مخالف عوامی مظاہرے گزشتہ چند ہفتوں سے جاری ہیں، ان کے پس منظر میں ملک کے مغربی صوبے انبار میں اب حکومتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے جبر کا ایک نیا طریقہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اس عراقی صوبے میں سکیورٹی دستوں نے اب ایسے شہریوں کو بھی گرفتار کرنا شروع کر دیا ہے، جو انبار میں حکومت مخالف مظاہروں کے شرکاء کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر ان کی حمایت میں مختلف پیغامات پوسٹ کر رہے تھے۔ انبار مغربی عراق کا زیادہ تر صحرائی علاقے والا ایسا صوبہ ہے، جہاں سنی مسلم آبادی کی اکثریت ہے۔ اس صوبے میں اب تک کم از کم دو ایسے شہریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جنہوں نے اپنی اپنی فیس بک وال پر حکومت مخالف مظاہرین کی حمایت کی تھی۔ ایک تیسرے سوشل میڈیا صارف کو حکام نے پوچھ گچھ کے لیے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف نے نے لکھا ہے کہ دارالحکومت بغداد اور جنوبی عراق میں، جو دونوں ہی زیادہ تر شیعہ آبادی والے علاقے ہیں، گزشتہ کئی ہفتوں سے حکومت اور حکمران اشرافیہ کی مبینہ کرپشن کے خلاف جو عوامی مظاہرے جاری ہیں، اس احتجاج کی لہر ابھی تک مغربی عراق یا کرد آبادی والے شمالی عراق میں نہیں پہنچی۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے میں عام شہریوں کو یہ خوف رہتا ہے کہ اگر انہوں نے حکومت مخالف مظاہروں‍ کی حمایت کی تو یا تو ان پر 'دہشت گرد‘ ہونے کا الزام لگا دیا جائے گا یا پھر انہیں سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کے حامی کہا جانے لگے گا۔

ہیومن رائٹس واچ نے آج اپنے ایک بیان میں کہا  اور مغربی عراق کے شہریوں نے بھی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی کہ مغربی عراق میں حکام عام شہریوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس طرح اور قریب سے نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی اور اس کا استعمال کسی بھی شہری کی شخصی آزادی کے خاتمے کی وجہ بن سکتا ہے۔

Symbolbild Twitter
سکیورٹی دستوں کی کارروائیوں کی وجہ فیس بک ہی نہیں بلکہ ٹوئٹر اور واٹس ایپ کے ذریعے پوسٹ کیے گئے پیغامات بھی بنتے ہیںتصویر: Imago/xim.gs

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ایسے عراقی شہریوں کے خلاف سکیورٹی دستوں کی کارروائیوں کی وجہ صرف فیس بک ہی نہیں بلکہ ٹوئٹر اور واٹس ایپ جیسے ذرائع سے پوسٹ کیے یا کسی کو بھیجے جانے والے پیغامات بھی بنتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور عراق کے انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق بغداد اور جنوبی عراق سے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران جن سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا، ان میں سے بہت سے ابھی تک رہا نہیں کیے گئے۔

انبار میں حکومت مخالف مظاہرین کے حق میں سوشل میڈیا پر پیغامات پوسٹ کرنے والے تین افراد کو تو ایسے پیغامات کی پوسٹنگ کے چند گھنٹے کے اندر اندر ہی گرفتار کر لیا گیا، جبکہ کئی صارف اپنی گرفتاری کے خوف سے زیر زمین بھی چلے گئے ہیں۔

دوسری طرف ہیومن رائٹس واچ کی مشرق وسطیٰ کے لیے ڈائریکٹر سارہ لی وِٹسن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ''جس طرح انبار میں عراقی حکام نے ایسے صارفین کی طرف سے بالکل پرامن سیاسی پیغامات پوسٹ کیے جانے کے بعد ان کے خلاف کارروائیاں کی ہیں، وہ عراق میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے بہت ہی بری پیش رفت ہے۔‘‘

م م / ع ا (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں