1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا

بینش جاوید
31 اکتوبر 2021

پاکستانی حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے اعلان کیا ہے کہ ان کے اور کالعدم تنظیم  تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے تاہم اس ٹیم کی جانب سے معاہدے کی تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/42P7c
تصویر: Mohsin Raza/REUTERS

اسلام آباد میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر، مفتی منیب اور ٹی ایل پی کے رہنما مفتی غلام عباس فیضی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اس معاہدے کے بارے میں اعلان کیا۔ حکومتی ٹیم میں شامل مفتی منیب کا کہنا تھا، ''حکومت پاکستان اور ٹی ایل پی کے مابین باہمی اعتماد کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی گئی اور دونوں پارٹیوں کے مابین معاہدہ طے پا گیا ہے۔‘‘ مفتی منیب کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی نے بھی اس معاہدے کی توثیق کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ کسی ایک پارٹی کی فتح یا شکست نہیں ہے۔

تاہم تجزیہ کاروں کی جانب سے اس بات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ کیوں حکومت کی جانب سے اس معاہدے کی تفصیلات عوام کو نہیں بتائی گئیں۔ صحافی فہد حسین نے اس حوالے سے اپنی ٹویٹ میں لکھا،''نہ کوئی تفصیلات، نہ سوالات، یہ پریس کانفرنس کس لیے تھی؟ حکومت معاہدے کی تفصیلات کیوں چھپا رہی ہے؟‘‘

صحافی امبر رحیم شمسی کا کہنا تھا، ''وہ مظاہرین جنہیں حکومت جنگجو اور بھارت کے ساتھ روابط رکھنے کا کہہ چکی ہے، ان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے بدتر کیا ہو سکتا ہے؟ کیوں کہ ریاست اپنی رٹ قائم نہ رکھ سکی۔‘‘

صحافی کامران یوسف کا کہنا تھا،''پی ٹی آئی اور حزب اختلاف کی جماعتوں میں یہ فرق ہے کہ پی ایم ایل این اور پی پی پی کے برخلاف سن 2017ء میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن کے خلاف ٹی ایل پی کے مظاہروں کا فائدہ اٹھایا۔اس مرتبہ کسی بھی حزب اختلاف کی جماعت کے لیڈر نے یہ نہیں کہا کہ وہ ٹی ایل پی کے مظاہروں میں شامل ہوں گے۔‘‘

سعد حسین رضوی کون ہیں؟

تحریک لبیک کا احتجاج: بلیک میلنگ اور ریاستی کمزوری کب تک

سول سوسائٹی کے متحرک کارکن جبران ناصر کا کہنا تھا، ''ہمارے پولیس افسر کیوں مارے جا رہے ہیں؟ یہ ریاست اور اس کی پالیسیاں ان کی قربانیوں کا مذاق اڑا رہی ہیں۔ ٹی ایل پی کو زندہ رکھا جا رہا ہے تاکہ جب اسٹیبلشمنٹ چاہے، اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔‘‘

ٹی ایل پی کی جانب سے مظاہروں کا حالیہ سلسلہ اس سال بارہ ربیع الاول کو شروع ہوا۔ بنیادی طور پر وہ پنجاب حکومت پر سعد رضوی کی رہائی کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے، جو اس سال بارہ اپریل سے پنجاب حکومت کی تحویل میں ہیں۔ لیکن بعد میں ان کا کہنا تھا کہ احتجاج دراصل پیغمبر اسلام کے احترام میں کیا جا رہا ہے اور انہوں نے مارچ کو لاہور سے اسلام آباد لے جانے کا اعلان کیا۔

تجزیہ کاروں کی جانب سے اس سارے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب ایک فرانسیسی اخبار میں پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کیے گئے تو ٹی ایل پی احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آئی اور  فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ کر دیا۔ ان احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی کو کہا گیا کہ وہ ملک سے فرانسیسی سفیر کے نکالنے کے معاملے کو پارلیمنٹ میں لے کر جائے گی۔ تب سے یہ معاملہ حکومت کے لیے ایک درد سر بنا ہوا ہے۔