1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'جولائی میں روپے کی قدر مستحکم ہونے کی توقع ہے‘

بینش جاوید
27 جون 2019

پاکستان میں بدھ کے روز امریکی ڈالر کی انٹربینک قیمت خرید  161.9 پر بند ہوئی۔ روپے کی قدر میں تیز رفتار کمی کے بعد توقع ہے کہ جولائی میں روپے کی قدر مستحکم ہوگی۔

https://p.dw.com/p/3LB4O
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Goya

دسمبر 2017ء  کے بعد سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر قریب پچاس فیصد تک کم ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اسی باعث موجودہ حکومت شدید دباؤ کا شکار بھی ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ گراوٹ سے متعلق ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار خرم شہزاد نے بتایا، '' آئی ایم ایف کی ایک شرط یہ ہے کہ کرنسی کو روکا یا اسے مصنوعی طور پر فریز نہیں کیا جا ئے گا۔ پہلے زر مبادلہ کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانی کرنسی کو مینیج کیا جاتا تھا۔ آئی ایم ایف کا  کہنا ہے کہ زرمبادلہ کو ایسے استعمال نہ کیا جائے تاکہ روپے کی درست قدر کا پتا چلے۔‘‘ 

 پاکستان کی در آمدات اور بر آمدات میں بہت زیادہ فرق اب بھی قائم ہے۔ پاکستانی مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی کم ہے اور درآمدات کی ادائیگیاں کرنے کے باعث ڈالر کی مانگ بہت زیادہ ہے جو کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ جون میں قرضہ جات کی ادائیگیاں بھی کی جاتی ہیں جس کے باعث ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

پاکستانی منڈی میں ڈالرکا بائیکاٹ ، سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث

قطر کی طرف سے تین بلین ڈالرز کی مدد، تصدیق نہ ہوسکی

خرم شہزاد نے امید ظاہر کی جولائی میں پاکستانی روپے کی قدر مستحکم ہو سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آئی ایم ایف کا وفد تین جولائی کو پاکستان آ رہا ہے اور ایک سے دو ہفتے میں پاکستان کو قریب پچاس کروڑ ڈالر مل سکتے ہیں۔ ایشین ڈویلیپمنٹ بینک اور عالمی بینک  سے بھی ایک سے دو ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ قطر کی حکومت نے بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرح پاکستان کو 'کیش سپورٹ‘  فراہم کرنے کا کہا ہے ۔‘‘

خرم شہزاد نے مزید بتایا کہ پاکستان ہر ماہ قریب سوا ارب ڈالر کا تیل خریدتا ہے۔ یکم جولائی سے قریب ماہانہ ستائیس کروڑ ڈالر کی مالیت کا تیل سعودی عرب فراہم کرے گا اور پاکستان کو اس کا معاوضہ فوری طور پر نہیں دینا ہوگا۔

پاکستان کے اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اگر حالات غیر مستحکم ہوئے تو اسٹیٹ بینک فوری طور پر اقدامات کرے گا۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر کا کہنا ہے، ''پاکستان مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج پالیسی کے تحت کام کرتا ہے جس میں مانگ اور طلب کے تحت روپے کی قدر طے ہوتی ہے لیکن پاکستانی روپے کو مکمل طور پر مارکیٹ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔‘‘