1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتاسپین

جنسی مقاصد کے لیے سیاحت: جب ضمیر بھی چھٹی پر چلا جائے

9 اگست 2022

بہت سے سیاح اپنے لیے شہوت سے بھرپور جنسی سرگرمیوں کے خواہش مند ہوتے ہیں اور ان کے لیے مالی ادائیگیوں پر تیار بھی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بہت سی مشہور سیاحتی منازل اس رجحان کے تدارک اور روک تھام سے ہچکچاتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4FJjR
مشہور سیاحتی مقامات کے ریڈ لائت ایریاز سیاحوں کے لیے زیادہ پرکشش ہوتے ہیں، جیسے نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈم اس تصویر میں تصویر: Robin Utrecht/picture alliance

ہسپانوی جزیرے مایورکا کے مشہور ترین سیاحتی علاقے پلایا دے پالما پر جب رات پڑتی ہے، تو ہر طرف شبینہ جسم فروشی جیسے مردہ سے یکدم دوبارہ زندہ ہو جاتی ہے۔ ساحل سمندر سے محض چند سو میٹر دور بہت سی خواتین، جن کی اکثریت کا تعلق نائجیریا سے ہوتا ہے، سرعام اپنی جنسی خدمات پیش کرتی اور دعوت عمل دیتی نظر آتی ہیں۔ ان کے تقریباﹰ تمام ہی گاہک وہاں چھٹیاں گزارنے کے لیے آنے والے سیاح ہوتے ہیں۔

جسم فروشی ایک پیشہ ہے جس کی سکیورٹی اور وقار کا پاس رکھا جائے، سپریم کورٹ

اسپین کے اس جزیرے پر سیکس ورکرز کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم طبی امدادی تنظیم میڈیکوس ڈیل مُونڈو کے عہدیدار روسیو لوپیز کہتے ہیں، ''مایورکا میں جسم فروشی کی طلب میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ یہاں آنے والے سیاح ہیں۔‘‘ موسم گرما میں، جب اس ہسپانوی جزیرے پر سیاحتی تعطیلاتی سیزن عروج پر ہوتا ہے، وہاں جسم فروشی کرنے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد اکثر دو گنا ہو جاتی ہے۔

سیاحوں کے لیے پرکشش ریڈ لائٹ ایریاز

بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیکس ٹورازم ایک ایسا پیچیدہ اور متنوع مسئلہ ہے، جو ہر ملک میں پایا جاتا ہے اور جس کا ہر معاشرے کو سامنا ہے۔ یہ مسئلہ مایورکا میں بھی دیکھنے میں آتا ہے، امریکہ میں بھی اور ڈومینیکن ریپبلک جیسے ممالک میں بھی۔

"Oben ohne Club" auf Mallorca
ہسپانوی جزیرے مایورکا پر پلایا دے پالما کے ایک ٹاپ لیس بار کا وہاں سے گزرنے والے سیاحوں کے لیے اشتہار بھی دعوت نامہ بھیتصویر: Daniel Reinhardt/picture alliance/dpa

’دنیا بھر کے لیے روٹی‘ نامی امدادی تنظیم کے ایک اسپیشلسٹ یونٹ سے تعلق رکھنے والی آنٹیے مون ہاؤزن کہتی ہیں، ''جنسی مہم جوئی بے شمار انسانوں کے سیاحتی سفر کے پیچھے کار فرما اصل محرک ہوتی ہے۔ یہ بات یوں بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈم کا ریڈ لائٹ ایریا اگر دنیا بھر میں مشہور ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وہاں جانے والے سیاحوں کے لیے بہت زیادہ کشش کا حامل بن چکا ہے۔‘‘

’’بے چہرہ - جسم فروش خواتین‘‘ کے عنوان سے نمائش

صرف اسپین میں ہی جسم فروشی سالانہ تقریباﹰ ایک بلین ڈالر کی آمدنی والا پیشہ ہے اور ملک بھر میں بیسیوں ہزار جسم فروش انسان اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ یہ بات کوئی نہیں جانتا کہ اسپین میں اس پیشے سے غیر قانونی طور پر وابستہ انسانوں کی اصل تعداد کتنی ہے، جن کی سرگرمیاں بہرحال کسی بھی قانون کے دائرے میں نہیں آتیں۔

یورپ میں جسم فروشی پر مجبور خواتین کی مدد کرنے، انہیں اس پیشے سے باہر نکالنے اور ان کی سماجی بحالی کے لیے سرگرم ایک بڑی تنظیم کا نام ایپرامپ (APRAMP) ہے، جس کا کہنا ہے کہ پورے یورپ میں غیر قانونی جسم فروشی کہیں اتتی زیادہ نہیں ہوتی جتنی اسپین میں۔ ایک المناک سچ یہ بھی ہے کہ جیسا کہ مایورکا میں جسم فروشی کی صورت حال سے واضح ہے، اسپین دنیا بھر میں تھائی لینڈ اور پورٹو ریکو کے بعد تیسرا ایسا ملک ہے، جہاں جسم فروشی کے پیشے کا سیاحت سے گہرا تعلق ہے۔

ایک سو تیس غریب افغان خواتین کو بیچ دینے والا ملزم گرفتار

Niderlande Rotlichtviertel in Amsterdam
ایمسٹرڈم کے ریڈ لائٹ ایریا میں دو سیاح تصویر بنواتے ہوئےتصویر: Robin Utrecht/picture alliance

جنسی استحصال اور بیرون ملک سے لائی گئی خواتین

Bread for the World نامی امدادی تنظیم کے اسپیشل یونٹ ٹورازم واچ کی عہدیدار آنٹیے مون ہاؤزن کہتی ہیں، ''ایسی صورت حال میں بالعموم کوئی سوشل کنٹرول نہیں ہوتا۔ لوگ بہت زیادہ شراب نوشی کرتے ہیں اور تعطیلاتی سیاحت کے دوران من مانی کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی روزمرہ کی مصروفیات سے فرار کے خواہش مند سیاح کسی بھی طرح کے مروجہ سماجی رویوں کے عملاﹰ قائل نہیں ہوتے۔ پھر مقامی آبادی اور سیاحوں کی مالی حیثیت کے مابین اقتصادی خلیج بھی مزید واضح ہوتی جا رہی ہے۔ اس طرح سیاح اپنی سیاحتی منزلوں پر وہاں رہنے والے مقامی رہائشیوں کا مالی استحصال بھی کرتے ہیں، جو انتہائی غیر اخلاقی بات ہے۔‘‘

ہسپانوی وزیر اعظم کا ملک سے جسم فروشی کو ختم کرنے کا عزم

اس استحصال کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اسپین کے جزیرے مایورکا میں پولیس نے حال ہی میں پلایا دے پالما میں سڑکوں پر جسم فروشی کی روک تھام کے لیے کارروائی کی تو ساتھ ہی انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کے خلاف بھی چھاپے مارے گئے۔ اس دوران پتہ یہ چلا کہ ایسے گروہ بیرون ملک سے خواتین کو مختلف ملازمتیں دینے کے بہانے پہلے اسپین لاتے ہیں اور پھر ان کے ذمے ہزاروں یورو کے قرض کی واپسی کے لیے انہیں جسم فروشی پر مجبور کر دیتے ہیں۔

پچانوے فیصد جسم فروش خواتین رہائشی پرمٹوں کے بغیر

امدادی تنظیم میڈیکوس ڈیل مُونڈو کے مطابق اسپین میں 95 فیصد جسم فروش بیرون ملک سے آئی ہوئی ایسی تارکین وطن خواتین ہوتی ہیں، جن کے پاس اسپین میں رہائش کا سرکاری اجازت نامہ تک نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ یورپی یونین کے رکن اس ملک میں کوئی دوسرا اور قانونی طور پر جائز کام بھی نہیں  کر سکتیں۔ ایسی خواتین ان جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتی ہیں، جو پھر ان سے جبراﹰ پیشہ کرواتے ہیں۔

Nachtleben im Rotlichtviertel Soi Cowboy, Bangkok
تھائی لینڈ سیکس ٹورازم کے لیے مشہور دنیا کے تین معروف ترین ممالک میں سے ایک ہے، تصویر میں بنکاک کا ریڈ لائٹ ایریاتصویر: Foto Beck/imageBROKER/picture alliance

جسم فروشی کے خلاف عالمی دن: ’یہ پیشہ نہیں، استحصالی نظام ہے‘

میڈیکوس ڈیل مُونڈو کے روسیو لوپیز کہتے ہیں، ''کہا جاتا ہے کہ یہ کام کرنا اس پیشے سے وابستہ عورتوں کا اپنا ذاتی اور آزادانہ فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ محض ایک مفروضہ ہے۔ ایک کہانی۔ اس لیے کہ آزادانہ اور خوشی سے کیا گیا ذاتی انتخاب تو تب ہو، جب ان عورتوں کے پاس سرے کوئی دوسرا فیصلہ کر سکنے کا کوئی امکان بھی ہو۔‘‘

نابالغ بچوں کو درپیش خطرات

سیکس ٹورازم اس وقت اور بھی شدید مسئلہ بن جاتا ہے، جب اس میں نابالغ بچوں کا جنسی استحصال بھی شامل ہو جائے اور ایسا دنیا کے بہت سے ممالک میں ہوتا ہے۔ بچوں کی امدادی تنظیم ای سی پی اے ٹی کی عہدیدار جوزفین ہامان کے مطابق یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں، جس کی وجہ صرف بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے عادی مجرم بنتے ہوں۔

وہ کہتی ہیں، ''تعطیلاتی سفر کرنے والے سیاحوں میں سے بہت بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے، جو موقع ملنے پر بچوں کا جنسی استحصال کرنے پر بھی آمادہ ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ان حالات میں کہ جب وہ اپنے وطن میں نہ ہوں اور ان کی شناخت بھی خفیہ رہے۔ اس صورت حال میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث مزید خرابی پیدا ہوئی ہے۔ بہت سے گھرانوں کی مالی حالت ابتر ہوئی ہے، بے روزگاری زیادہ ہوئی ہے۔ تو ان گھروں کی عورتیں اور بچے بھی مجبوراﹰ جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ لگنے کے بعد جسم فروشی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ سب سے المناک بات یہ کہ اب بچوں کے جنسی استحصال کے خطرات بہت زیادہ ہو گئے ہیں، خاص طور پر مشہور سیاحتی علاقوں اور شہروں میں۔‘‘

جسم فروشی کے لیے انسانوں کی اسمگلنگ سے سو ارب ڈالر کی کمائی

آنٹیے مون ہاؤزن کے بقول، ''افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ شاید ہی کوئی متاثرہ ملک ایسا ہو، جو اپنے ہاں نابالغ بچوں کے جنسی استحصال کے مسئلے سے باخبر ہونے کے باوجود اسے حل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو۔ کوئی بھی اس مسئلے کا سامنا کرنا ہی نہیں چاہتا۔‘‘

نئی قانون سازی کا امکان

ہسپانوی جزیرے مایورکا پر جسم فروشی ایک ایسا موضوع ہے، جس کے بارے میں بہت ہی کم بات کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود پلایا دے پالما میں خواتین کے برہنہ رقص والی کئی بارز اور دوسری کلبس ایسی ہیں، جہاں گاہکوں کو کھلے عام جسم فروشی کی دعوت دی جاتی ہے۔ پولیس سڑکوں پر جسم فروشی کرنے والے خواتین کو بھی کبھی کبھار ہی چیک کرتی ہے۔ روسیو لوپیز کہتے ہیں، ''اس بارے میں عوامی شعور میں اضافے کے لیے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے، خاص طور پر سیاحوں کے حوالے سے۔‘‘

جنسی خدمات خریدنے پر پابندی مؤثر؟ سیکس ورکرز کا جواب: ’نہیں

روسیو لوپیز نے تاہم ایک ممکنہ امید افزا پیش رفت کا ذکر بھی کیا، ''ممکن ہے یہ تکلیف دہ صورت حال مستقبل میں قطعی بدل جائے۔ اس لیے کہ اسپین کی مرکزی حکومت ملکی فوج داری قوانین میں مزید سختی لانے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا، تو مستقبل میں سیکس ورکروں سے مالی ادائیگیوں کے عوض ان کی سروسز خریدنے والے گاہکوں کو بہت بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا ہو گا۔‘‘

م م / ع ا (جوناس مارٹینی)