1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمایشیا

جنسی جرائم، اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا

عبدالستار، اسلام آباد
20 اگست 2021

پاکستان میں جنسی عمل کی ویڈیو بنا کر یا پھر برہنہ تصاویر لے کر متاثرہ افراد، خاص طور پر خواتین کو بلیک میل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جبکہ متاثرہ افراد معاشرتی دباؤ اور خوف کی وجہ سے چپ سادھ لیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3zHJX
Indien Holi und sexuelle Belästigung
تصویر: DW/A. Sharma

پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسا ادارہ نہیں ہے، جو صرف اس طرح کے جرائم پر ریسرچ کر رہا ہو۔ پاکستان میں سن دو ہزار انیس میں پندرہ ہزار سے زائد جنسی ہراسانی کے کیس رپورٹ ہوئے، جن میں اس طرح کے بلیک میلنگ کے واقعات بھی تھے۔ لیکن ماہرین اور متاثرہ افراد کا خیال ہے کہ اس نوعیت کے سینکڑوں واقعات سماج کے خوف کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

اکیس سالہ حسنین مقدر اپنے آبائی علاقے کوٹلی ستیاں کو چھوڑ کر اپنے رشتے داروں اور عزیز و اقارب سے منہ چھپا کر کہوٹہ میں رہائش پذیر ہے۔ ستمبر دو ہزار انیس سے پہلے حسنین ایک معمول کی زندگی گزار رہا تھا کہ اچانک ان کے ایک جاننے والے نے لفٹ کے بہانے انہیں اسلام آباد کے نیلور علاقے میں پہنچا دیا، جہاں تین اور جرائم پیشہ افراد نے ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور ان کا جاننے والا بھی اس میں برابر شریک رہا۔ ملزمان نے اس جنسی عمل کی ویڈیو بھی بنائی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس واقعے کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے یہ چاروں ملزمان مجھے ہر مہینے میں تقریبا تین سے چار دفعہ بلاتے اور باری باری زیادتی کرتے رہے اور کہتے کہ اگر تم نہیں آئے تو پھر وہ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیں گے۔‘‘

حسنین مقدر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس نے اس سال مارچ میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ ان کی مزید خواہشات کی تکمیل کے لیے ان کے پاس نہیں جائے گا، ''جب میں نے ان کے پاس جانا بند کر دیا تو انہوں نے آہستہ آہستہ میری ویڈیو لیک کرنا شروع کر دیں لیکن مجھے اس سال جون میں پتا چلا۔ اس کے بعد میں پولیس اسٹیشن گیا اور میں نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔ پولیس نے دو ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے لیکن بقیہ دو ملزمان کی گرفتاری ابھی تک نہیں ہو سکی۔‘‘

حسنین کے بقول وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر پولیس ان دو بقیہ ملزمان کو گرفتار کیوں نہیں کر پا رہی ہے؟

سوشل میڈیا اور جنسی جرائم 

حسین مقدر کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے اور موبائل فون کے استعمال کی وجہ سے ان جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے، ''قانون کی عمل داری نہیں ہے اور کوئی بھی شخص کسی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کے ویڈیو بنا لیتا ہے اور پھر ویڈیو بنانے کے بعد اسے بلیک میل کرتا ہے۔ اس بلیک میلنگ کی وجہ سے بہت سارے جنسی جرائم ہو رہے ہیں، جن کی روک تھام کرنا بہت ضروری ہے ورنہ یہ معاشرے کے لئے تباہ کن ہو گا۔‘‘

چائلڈ رائٹس موومنٹ کے نیشنل کوآرڈینیٹر ممتاز گوہر کا کہنا ہے کہ اسمارٹ فون کے غلط استعمال سے جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسے جرائم پیشہ عناصر ہیں، جو بچوں سے یا خواتین سے دوستیاں کرتے ہیں اور پھر کسی بہانے سے ان کی ویڈیو بنا لیتے ہیں یا نازیبا فوٹو کھینچ لیتے ہیں اور پھر ایسا کرنے کے بعد ان کو بلیک میل کرتے ہیں اور جنسی جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ قصور کے واقعے میں تین سو سے زیادہ کلپس ملے۔ ایبٹ آباد میں بھی اسی نوعیت کے واقعات ہوئے، اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض پر اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں۔‘‘

 سابق آئی جی سندھ افضل علی شگری کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صرف سزائیں دینے سے ہی مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ مقدمات کو چلانا چاہیے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کو بھی ریگولیٹ کرنا پڑے گا کیونکہ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے آنے سے واقعی بلیک میلنگ کا رجحان بڑھا ہے اور اس طرح کے جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘‘

 نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی سابق رکن انیس ہارون کا کہنا ہے کہ یہ بلیک میلنگ بھی اس لئے ممکن ہوتی ہے کہ معاشرے کا رویہ ظلم کا شکار بننے والے کے ساتھ نامناسب ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''جس کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، ہمارے سماج میں اسی پر ہی الزام لگا دیا جاتا ہے اور متاثرہ فرد کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کورٹ کچہری میں جا کر بھی مقدمات التوا کا شکار رہتے ہیں اور بہت کم مقدمات پر کوئی فیصلہ ہو پاتا ہے۔‘‘