1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جمہوریت کا عالمی دن: پاکستان میں جمہوری کلچر کتنا مضبوط

15 ستمبر 2022

لاپتہ افراد اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں سے قطع ںظر ملکی پارلیمنٹ دو دفعہ اپنی مدت پوری کر چکی اور تیسری مرتبہ اس راستے پر گامزن ہے، کیا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں جمہوری ثقافت بہتری کی طرف گامزن ہے؟

https://p.dw.com/p/4Gvuj
Polizisten verprügeln demonstrierende Anwälte in Multan, Pakistan
تصویر: AP

2007 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس کے بعد ہر سال دنیا بھر میں 15 ستمبر کو یوم جمہوریت منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ کے مطابق رواں برس اس دن کی سرگرمیوں کی توجہ ”جمہوریت، امن اور پائیدار ترقی کے اہداف کے لیے میڈیا فریڈم کی اہمیت پر مرکوز ہو گی۔" اس دن کی مناسبت سے ہم نے پاکستان میں جمہوریت، ڈیموکریٹک کلچر اور میڈیا کی صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ 

 جمہوری نظام کا تسلسل ایک سنگ میل

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جمہوریت کی بحالی اور اس کا تسلسل ایک طویل عرصے تک خواب رہا مگر 2018 کے بعد تاحال جمہوریت کی گاڑی اپنی پٹڑی پر رواں دواں ہے۔اس حوالے سے معروف صحافی سہیل وڑائچ نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”پارلیمنٹ دو دفعہ اپنی مدت پوری کر چکی اور تیسری مرتبہ اس راستے پر گامزن ہے، یہ غیر معمولی بات ہے۔ یہ ہماری ملکی تاریخ میں ایک سنگل میل ہے۔ اگر جمہوریت کا پودا اسی طرح پرورش پاتا رہا تو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر پھل دینے لگے گا۔"

 وہ کہتے ہیں، ”اگرچہ لاپتہ افراد، میڈیا پر پابندیاں اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں سمیت بہت سے مسائل موجود ہیں مگر آپ آواز اٹھا سکتے ہیں، احتجاج کر سکتے ہیں اور اپنی رائے طاقت ور حلقوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اگر جمہوری نظام نہ ہو تو آپ کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں بچتا، امید کی کرن ہی نہیں ہوتی۔"  

عمران خان کی زندگی پرمبنی دستاویزی فلم

جمہوری کلچر کی تشویشناک صورتحال

حقوق انسانی کی معتبر عالمی تنظیم کونسل آف یورپ نے 2017 میں شائع کردہ اپنے ایک کتابچے میں جمہوریت کے لیے ڈیموکریٹک کلچر کے فروغ کو نہایت بنیادی اہمیت دی۔ اس کے مطابق ”یقیناً جمہوریت اداروں اور قوانین کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے لیکن اس کا سفر شہریوں کے رویوں کے مرہون منت ہوتا ہے۔ اسی لیے جمہوریت کی پرورش اور اس کا فروغ از حد ضروری ہے۔"

پاکستان میں ڈیموکریٹک کلچر کی صورتحال پر ہیومن رائٹس کمیشن کے سیکریٹری جنرل اور سماجی دانشور حارث خلیق عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”جمہوری نظام کا تسلسل قابل تحسین مگر جمہوریت روز بروز کمزور پڑ رہی ہے۔ ہمارے رویوں میں اتنی عدم برداشت شاید پہلے کبھی نہ تھی جیسی اب نظر آتی ہے۔ اختلاف رائے کو دشمنی سمجھا جاتا ہے اور یہاں تک کہ مختلف نظریات رکھنے والے افراد کو لاپتہ کر دیا جاتا ہے یا ان سے جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔"

یاد رہے لاپتہ افراد کے کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے چھ برس کے دوران سب سے زیادہ کیسیز 2021 میں درج ہوئے جن کی تعداد 1460 ہے۔

حارث خلیق کہتے ہیں، ”جب اتنی بڑی تعداد میں شہری اٹھائے جا رہے ہوں، توہین مذہب کے مقدمات قائم ہو رہے ہوں تو آپ جمہوری ثقافت کی صورتحال کو تشویشناک قرار دئیے بغیر کیا کہہ سکتے ہیں۔"

جمہوریت کی مضبوطی میں میڈیا کا کردار

عالمی یوم جمہوریت کے موقع پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انٹونیو گوٹیرش کہتے ہیں، ”آزاد صحافت کے بغیر جمہوریت زندہ نہیں رہ سکتی۔ آزادی اظہار کے بغیر کسی بھی طرح کی آزادی ممکن نہیں۔"

’جہوریت کا متبادل، صرف جمہوریت‘

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ غیر آئینی ادوار کے مقابلے میں میڈیا کی موجودہ صورتحال بہتر قرار دیتے ہیں مگر تسلی بخش نہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو  سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”آئین معطل ہو تو آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے اب تو پھر بھی کسی حد تک شنوائی ہے۔"

پاکستان کی جمہوری جماعتوں کے میڈیا سے رویے کے حوالے سے وہ کہتے ہیں ”جب تک یہ اپوزیشن میں ہوں تب تک میڈیا فریڈم کی مکمل حمایت کرتے ہیں مگر حکومت میں آتے ہیں ان کے تیور بدل جاتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا، ”پیکا ترمیمی آرڈیننس اور پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی جیسے اداروں کے قیام کی کوشیش میڈیا کی زبان بندی کے مترادف تھیں جس کے خلاف آزاد عدلیہ، شہری حقوق کی تنظیمیں اور جمہوریت پسند عناصر دیوار بن گئے۔ افسوس ہے کہ یہ اقدامات جمہوری دور حکومت میں ہو رہے ہیں۔"

خواتین صحافیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد خوش آئند

پاکستان کی نامور صحافی اور اینکر پرسن غریدہ فاروقی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ملک کے جمہوری کلچر اور میڈیا کے لیے خوش آئند قرار دیتی ہیں۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”خواتین نہ صرف دنیا بلکہ پاکستان کی آبادی کا بھی تقریباً نصف حصہ ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کو نظر انداز کرکے میڈیا فریڈم کی بات نہیں کی جا سکتی۔ اگر خواتین کسی شعبے میں نہ ہوں یا بہت کم ہوں تو اس کا مطلب ہے ایک بہت بڑا طبقہ اپنی آواز، اپنے اظہارِ رائے سے محروم ہے۔"

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ”جب میں نے 2003 میں صحافت کے شعبے میں قدم رکھا تب میڈیا میں خواتین خال خال ہی نظر آتی تھیں۔ لیکن حالیہ عرصے کے دوران یہ تعداد تیزی سے بڑھی جو بہت اچھی بات ہے۔ اس میں مزید اضافہ ہونا چاہیے خاص طور پر میڈیا کی فیصلہ کن پوزیشنز پر۔"

 ’گالی سے ایک خاتون صحافی جیتے جی مر جاتی ہے‘

سوشل میڈیا کی آمد اپنے ساتھ ایک کلچر بھی لائی جس کا ایک جزو آن لائن ٹرولنگ بھی ہے۔ پاکستان میں بالخصوص خواتین صحافیوں کے خلاف آئے روز ٹوئٹر پر مختلف ٹرینڈز دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں بعض حلقے ٹرولنگ کے بجائے آن لائن وائلنس سمجھتی ہیں۔

موروثیت: پاکستان میں جمہوریت کو لاحق سب سے بڑا چیلنج

گذشتہ چند برسوں میں ممکنہ طور پر سب سے زیادہ اس کلچر کا شکار بننے والی غریدہ فاروقی ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں ”یہ خواتین صحافیوں کو خاموش کرانے کا نیا ہتھیار ہے جسے محض ٹرولنگ نہیں کہا جا سکتا۔ ٹرولنگ ہلکا پھلکا طنز یا مزاح ہو سکتا ہے مگر ہمارے ہاں خواتین صحافیوں کے خلاف ایسے منظم ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں جو سراسر جنسی ہراسانی اور آن لائن وائلنس ہیں۔"

۔ اس کی عزت نفس تار تار ہو جاتی ہے، اس کے رشتے مجروح ہوتے ہیں، اس کے بچے ڈسٹرب ہوتے ہیں، وہ شدید ذہنی اور نفسیاتی اذیت سے گزرتی ہے۔"

وہ کہتی ہیں ”میرے اعصاب مضبوط ہیں مجھے فرق نہیں پڑتا لیکن یہ بہت سی خواتین کے لیے حوصلہ شکن ہے، وہ آزادی سے اپنا کام نہیں کر سکتیں، وہ سیلف سینسر شپ پر مجبور ہونے لگتی ہیں۔" ان کے مطابق خواتین صحافیوں کو آن لائن تشدد سے بچانے کے لیے ”سائبر کرائم قوانین کو حرکت میں آنا چاہیے تاکہ میڈیا کی آزادی اور جمہوری ثقافت میں سب شہری برابر اپنا کردار ادا کر سکیں۔"