1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی آئینی دفعہ پر سماعت ملتوی

جاوید اختر، نئی دہلی
6 اگست 2018

جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی بھارتی آئین کی دفعہ 35A کو چیلنج کرنے والی عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت آج ملتوی کر دی گئی۔ دوسری طرف اس نئی پیش رفت پر وادی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/32gbO
Indien Neu Delhi Supreme Court
تصویر: Imago/Hindustan Times/S. Mehta

بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس اے ایم کھانولکر پر مشتمل بنچ نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا، ’’ہم اس معاملے کی سماعت 27 اگست کو کریں گے۔ اس دن تین ججوں پر مشتمل بنچ یہ فیصلہ کرے گا کہ اس معاملہ کو پانچ رکنی آئینی بنچ کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔‘‘

جموں و کشمیر کی، جہاں ان دنوں صدر راج نافذ ہے، انتظامیہ نے بھی عدالت عظٰمی سے درخواست کی تھی کہ ریاست میں آئندہ پنچایت اور بلدیاتی اداروں کے ہونے والے انتخابات کے پیش نظر اس حساس معاملے کی سماعت دسمبر میں کی جائے تاہم سپریم کورٹ نے اس کی یہ درخواست مسترد کر دی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35A کشمیریوں کو خصوصی مراعات دیتی ہے۔ یہ دفعہ جموں وکشمیر کے باہر کے افراد کے ریاست میں غیر منقولہ جائیدادیں خریدنے پر پابندی لگاتی ہے۔ یہ ان خواتین کو جائیداد میں حق سے بھی محروم کرتی ہے جنہوں نے ریاست کے باہر کے کسی شخص سے شادی کی ہو۔ یہ دفعہ ریاستی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں، ان کے خصوصی حقوق اور مراعات کو طے کرنے کا بھی اختیار دیتی ہے۔اس کے علاوہ مذکورہ دفعہ کے سبب ریاست کے باہر کے لوگوں کو نہ تو حکومتی ملازمتیں مل سکتی ہیں اورنہ ہی انہیں حکومتی اسکیموں کا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔

دہلی کی ایک رضاکار تنظیم ’وی دی سٹیزنز‘ نے مذکورہ آئینی دفعہ کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کر رکھی ہے۔ اس تنظیم کی دلیل ہے کہ یہ دفعہ بھارت کے دیگر شہریوں کے ساتھ تفریق ہے۔’وی د ی سٹیزنز‘ کے وکیل نے آج سماعت ملتوی ہوجانے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بہت خطرناک دفعہ ہے ۔یہ بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کی دوسری ریاستوں کے لوگ نہ تو وہاں ملازمت حاصل کرسکتے ہیں، نہ ہی زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی مکان بناسکتے ہیں۔اس لیے ہم لوگو ں نے سن 2014 میں سپریم کورٹ میں دفعہ 35A کو چیلنج کیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’سپریم کورٹ بھی اس دفعہ کی وجہ سے اپنی بے بسی کا اظہار کرچکی ہے۔کیونکہ ایک معاملے میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر ایک خودمختار ریاست ہے اس لیے بھارتی پارلیمان کا بنایا ہوا قانون وہاں نافذ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دفعہ 35A میں کسی طرح کی ترمیم یا اسے منسوخ کرنے سے ریاست جموں و کشمیر کا خصوصی کردار اور اس کی ’متنازع حیثیت‘ بدل جائے گی۔ اس سے ریاست میں آبادی کی خصوصی نوعیت بھی تبدیل ہوجائے گی۔

حکمراں قومی جمہوری اتحاد کی حلیف جماعت جنتا دل یونائٹیڈ کے رکن پارلیمان کے سی تیاگی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’آئین کی دفعہ 35A سپریم کورٹ کے زیر غور ہے، یہ ایک ایسی دفعہ ہے جو بھارت کو کشمیر سے جوڑتی ہے۔یہ دراصل حکومت ریاست جموں و کشمیر اور حکومت دہلی کے درمیان ایک معاہدہ ہے، اور ہماری پارٹی اس دفعہ کی حمایت کرتی ہے۔‘‘

تجزیہ کار اس معاملے پر جموں و کشمیر میں ایک نیا ہنگامہ شروع ہو جانے کا خدشہ ظاہرکر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شاید اسی لیے صوبائی گورنر این این ووہرا معاملے کی سماعت موخر کرانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے بھی ملاقات کی تھی۔ تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ دفعہ 35A میں ترمیم یا حذف سے ریاست کی مین اسٹریم سیاست پر بھی زبردست اثرات مرتب ہوں گے۔ علیحدگی پسند تحریک میں مزید شدت آسکتی ہے اور بھارت مخالف جذبات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ اس حوالے سے سن 2010 بیچ کے انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس کے ٹاپر کشمیر کے ایک اعلیٰ افسر شاہ فیصل کا ٹوئٹ کافی ٹرینڈ کر رہا ہے ۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا،’’میں دفعہ 35A کا موازنہ نکاح نامہ سے کروں گا۔ آپ اسے مسترد کریں گے تو رشتہ ختم ہوجائے گا۔ بعد میں بات چیت کے لیے کچھ بھی نہیں بچے گا۔‘‘ جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’اگر ریاست کی خصوصی حیثیت سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تو پورے ملک پر اس کے تباہ کن مضمرات ہوں گے۔‘‘

دریں اثنا میڈیا رپورٹوں کے مطابق دفعہ 35A پر سپریم کورٹ میں سماعت کے خلاف وادی کشمیر کے تمام دس اضلاع میں مسلسل دوسرے دن بھی مکمل ہڑتال ہے۔ بس اور ٹرین سروسز بند ہیں۔ سری نگر اور مظفرآباد کے درمیان چلنے والی ہفتہ وار ’کاروان امن بس سروس‘ بھی معطل کردی گئی ہے۔

خیال رہے کہ 1953 میں جموں وکشمیر کے اُس وقت کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ کی معزولی کے بعد وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی سفارش پر ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعہ بھارتی آئین میں دفعہA 35 کو شامل کیا گیا تھا، جس کی رُو سے بھارتی وفاق میں کشمیر کو ایک علیحدہ حیثیت حاصل ہے۔ 10 اکتوبر 2015ء کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں دفعہ 370 کو ناقابل تنسیخ و ترمیم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ  دفعہ 35A جموں وکشمیر کے موجودہ قوانین کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں