1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: چھ سو مہاجرین کی ملک بدری عین آخری لمحے روک دی گئی

شمشیر حیدر18 اگست 2016

کچھ تارکین وطن اس وجہ سے ملک بدر نہ کیے جا سکے کہ وہ آخری وقت تک اس فیصلے کے خلاف ڈٹے رہے اور کئی پناہ گزینوں کو آخری لمحات میں بذریعہ جہاز ان کے وطنوں کی جانب اس لیے نہ بھیجا گیا کہ وہ طبی طور پر سفر کے قابل نہیں تھے۔

https://p.dw.com/p/1JlBl
Leipzig Abgelehnte Asylbewerber am Flughafen abgeholt
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق 2015ء کے اوائل سے لے کر جون 2016ء تک کے درمیانی عرصے میں 600 تارکین وطن کو عین آخری لمحات میں جرمنی سے ملک بدر نہ کیا جا سکا۔ رپورٹوں کے مطابق اسی عرصے کے دوران قریب 33 ہزار پناہ کے متلاشی افراد کو جرمنی سے واپس ان کے آبائی وطنوں کی جانب بھیج دیا گیا۔

جرمنی نے اس سال اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟

جرمنی میں مہاجرین سے متعلق نئے قوانین

یہ اعداد و شمار جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ نے بائیں بازو کی سیاسی جماعت کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں حال ہی میں جاری کیے۔ وزارت داخلہ کے مطابق جن چھ سو افراد کی ملک بدری کا فیصلہ انہیں ہوائی جہازوں میں سوار کرائے جانے سے عین پہلے تبدیل کر دیا گیا، ان میں سے 330 تارکین وطن ایسے تھے جو آخری وقت تک اپنی ملک بدری کے فیصلے کے خلاف قانونی طور پر لڑتے رہے تھے۔

مہاجر خاندان افغان، مسئلہ مشرقی، مسئلہ مغرب میں

ایک سو ساٹھ مہاجرین کی ملک بدری اس وجہ سے ممکن نہ ہو سکی کہ مختلف فضائی کمپنیوں یا مسافر طیاروں کے پائلٹوں نے انہیں اپنے جہازوں میں لے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ 108 مہاجرین کی ملک بدری طبی وجوہات کی بنا پر ملتوی کر دی گئی تھی۔ علاوہ ازیں 37 تارکین وطن ایسے بھی تھے جنہیں ان کے آبائی ممالک نے واپس لینے سے انکار کر دیا جس کے باعث انہیں جرمنی سے ملک بدر نہ کیا جا سکا۔

ایسے تارکین وطن، جنہیں ملک بدر کیا جانا تھا، ان میں سے اپنی ملک بدری کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت افریقی ممالک اریٹریا اور گیمبیا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن نے کی۔ علاوہ ازیں جن دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں نے اپنی ملک بدری کے خلاف مزاحمت کی کوششیں کیں، ان میں پاکستان، صومالیہ، عراق اور کیمرون کے باشندے نمایاں تھے۔

وفاقی وزارت داخلہ نے اپنے جواب میں یہ وضاحت نہیں کی کہ مزاحمت کرنے والے تارکین وطن کی ملک بدری ملتوی کیے جانے کے بعد ان سے متعلق کیا فیصلے کیے گئے۔

2015ء کے آغاز سے لے کر اس سال کے وسط تک قریب 33 ہزار پناہ گزینوں کو ہوائی جہازوں کے ذریعے جرمنی سے ملک بدر کیا گیا۔ ملک بدر ہونے والے پناہ گزینوں کی تین چوتھائی تعداد کا تعلق مشرقی یورپ ممالک بالخصوص البانیہ، کوسووو، سربیا اور مقدونیہ جیسے ممالک سے تھا۔

علاوہ ازیں 1800 تارکین وطن ایسے بھی تھے جنہیں زمینی یا بحری راستوں کے ذریعے جرمنی سے واپس ان کے آبائی ممالک کی جانب بھیجا گیا۔ اس کے علاوہ مجموعی طور پر 5355 پناہ گزین ایسے بھی تھے جنہیں ’ڈبلن قوانین‘ نامی سیاسی پناہ کے یورپی قوانین کے تحت جرمنی سے نکال کر یونین کے دیگر ممالک کی جانب روانہ کر دیا گیا۔ ڈبلن قوانین کے مطابق تارکین وطن یونین کے اسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں، جس ملک کے ذریعے وہ یونین کی حدود میں داخل ہوئے ہوں۔

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں