جرمنی میں پناہ گزین ڈسکہ کا خزیمہ نصیر سفر کے قابل نہیں رہا
2 نومبر 2016نو مارچ 1992ء کے روز پیدا ہونے والے چھ فٹ سے زائد قد کے خزیمہ نصیر کی عمر ابھی پوری 25 برس بھی نہیں ہے۔ وہ آٹھ اگست 2015ء کو جرمنی پہنچا تھا، جس کے بعد اس نے یہاں سیاسی پناہ کی درخواست دے دی تھی۔
اس سال موسم گرما میں جب خزیمہ کو اچانک بہت تیز بخار ہونے لگا تو اس کے شہر زولِنگن کے ایک ہسپتال میں داخل کرائے جانے کے بعد پتہ چلا کہ وہ ہڈیوں کے سرطان کا شکار ہو چکا ہے۔ زولِنگن میں خزیمہ کا علاج قریب ایک ماہ تک ہوتا رہا تھا، جس کے بعد ڈاکٹروں نے اسے مزید بہتر علاج اور کئی طرح کی کیموتھراپی کے لیے کولون کے ایک مرکزی ہسپتال منتقل کر دیا تھا۔
کولون کے اس ہسپتال میں اب خزیمہ کو قرہب پونے چار ماہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران سرطان کی رسولیوں کے خاتمے کے لیے اس کی کئی طرح کی کیموتھراپی بھی کسی بہتری کی وجہ نہ بنی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ستمبر کے آخر میں طبی ماہرین نے اس کے کینسر کے انتہائی آخری مراحل میں پہنچ جانے کے بعد اس کا ہر قسم کا علاج بند کر دیا تھا۔
اب خزیمہ کو ہسپتال میں ایک ماہ سے بھی زائد عرصے سے صرف درد کے خلاف مختلف دوائیاں دی جاتی ہیں اور اس کی ہر طرح کی دیکھ بھال بھی کی جا رہی ہے لیکن ڈاکٹروں کے مطابق اس کی حالت مسلسل خراب ہوتی جا رہی ہے۔ وہ بہتر اور خوشحال زندگی، جس کے خوش کن خواب لیے وہ جرمنی آیا تھا، اب اس کے لیے اتنی کم پڑ چکی ہے کہ اس کے معالج اس کی زندگی کے ہر نئے دن کو ایک معجزہ قرار دیتے ہیں۔
خزیمہ کے سرطان کے ناقابل علاج ہو جانے کے بعد سے ہی یہ کوششیں کی جا رہی تھیں کہ اسے کسی طرح، اس کی خواہش کے مطابق، جلد از جلد واپس پاکستان بھجوا دیا جائے۔ اس دوران ہسپتال میں اس کی دیکھ بھال کرنے والے اس کے متعدد ہم وطن پاکستانیوں نے کوششیں کر کے اس کا ایک ایمرجنسی پاسپورت بھی بنوا لیا تھا تاکہ وہ کسی طرح واپس پاکستان جا سکے۔
خزیمہ کی ممکنہ واپسی کے لیے اس کی اور اس کے ساتھ جانے والے ایک جرمن ڈاکٹر کی پاکستان کے لیے فضائی ٹکٹیں یکم نومبر منگل کے روز کے لیے کنفرم تھیں لیکن پھر ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے باہمی مشورے کے بعد فیصلہ یہ کیا کہ خزیمہ کی حالت اتنی خراب ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایک ڈاکٹر ہونے کے باوجود پاکستان تک کا ’بہت طویل فضائی سفر‘ نہیں کر سکتا۔
کولون میں اسی ہسپتال کے ذرائع نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بھی بتایا کہ خزیمہ کی بیماری کے انتہائی آخری مرحلے کی وجہ سے اسے کوئی فضائی کمپنی ایک مسافر کے طور پر اپنے ساتھ لے جانے پر بھی تیار نہیں ہے۔
یہ پاکستانی نوجوان، جو اپنا علاج بند ہو جانے کے بعد بھی کئی ہفتوں سے موت کے خلاف مسلسل بڑی بہادری سے لڑ رہا ہے، ابھی تک امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے پر تیار نہیں ہے اور ہسپتال کا عملہ بھی ہر طرح سے اسے پرسکون اور مطمئن رکھنے کی کوششیں کر رہا ہے۔
ڈسکہ میں اپنی ایک ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکان چلانے والا خزیمہ اب بار بار یہ کہتا ہے کہ اسے کسی طرح واپس پاکستان پہنچا دیا جائے اور وہ اپنی زندگی کے آخری چند روز اپنے والدین کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے۔
یہ پاکستانی نوجوان ہسپتال میں اپنے بستر پر ہی تیمم کر کے اشارے سے نماز پڑھتا ہے اور دعا مانگتا ہے کہ کسی طرح اس کی پاکستان واپسی ممکن ہو جائے۔
خزیمہ نے، جس کے لیے اب بولنا مشکل اور سانس لینے کے لیے آکسیجن کا مسلسل استعمال لازمی ہو چکا ہے، بہت ہلکی آواز میں ایک ایک لفظ بولتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں واپس جانا چاہتا ہوں۔ زندہ، چاہے ایک دن کے لیے ہی سہی، اپنے والدین کے پاس۔ میں تابوت میں بند ہو کر اپنے والدین کے پاس نہیں جانا چاہتا۔‘‘