1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں معاشی ترقی کا دار و مدار تارکين وطن پر

عاصم سلیم Ben Knight
25 اپریل 2018

ماہرين اس بات پر تو متفق ہيں کہ جرمن معيشت ميں ترقی کے ليے اميگريشن لازمی ہے تاہم اہم بات يہ ہے کہ حکومت ہجرت کے عمل کو کس طرح یوں منظم کرے کہ تعليم يافتہ و ہنر مند افراد کو دوسروں کی نسبت زيادہ مواقع ميسر ہو سکيں۔

https://p.dw.com/p/2wcwv
Flüchtlinge Arbeitsagentur
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kahnert

ايسے سياستدانوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے، جن کی رائے ميں جرمنی ميں اميگريشن سے متعلق قوانين ميں اصلاحات فوری طور پر ہونی چاہييں۔ صوبہ نارتھ رائن ويسٹ فاليا کے نائب وزير اعلیٰ يوآخم اشٹامپ کا ايک حاليہ بيان اس سلسلے ميں بڑھتی ہوئی بے صبری کا عکاس ہے۔

اشٹامپ نے جرمن اخبار ’زوڈ ڈوئچے زائٹنگ‘ کو پچھلے ہفتے ديے گئے اپنے ايک انٹرويو ميں کہا تھا کہ وفاقی حکومت کو اس مقصد کے ليے جتنی جلدی ہو سکے ايک سمٹ منعقد کرانی چاہيے۔ ان کے بقول آج کل ہر معاملے ميں اميگريشن کا پہلو نظر آتا ہے اور اگر جلد اقدامات نہ اٹھائے گئے، تو عوام ايسا سمجھيں گے کہ انہيں ’بے وقوف‘ بنايا جا رہا ہے۔

اشٹامپ نے اس سلسلے ميں کليدی مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا، ’’سياسی پناہ، جنگ سے متاثرہ پناہ گزين اور اعلی تعليم يافتہ ماہرين سبھی کو ايک ہی نظر سے ديکھا جاتا ہے۔‘‘ ان کے بقول اس سلسلے ميں منظم ہونے کی ضرورت ہے، نہ صرف انسانی ہمدردی کے تحت بلکہ جرمنی کے اپنے اقتصادی مستقبل کے ليے بھی۔

جرمنی ميں ملکی اقدار، انضمام اور ہجرت کے موضوعات پر کام کرنے والے ماہرین کے ايک گروپ نے گزشتہ روز برلن ميں ايک پريس کانفرنس کے دوران اميگريشن کے حوالے سے موجودہ قوانين سے متعلق اس گروپ کی ايک تازہ رپورٹ پیش کی گئی۔ اس موقع پر يونيورسٹی آف کونسٹانس ميں قانون کے پروفيسر ڈينيل تھائم نے کہا کہ وقت آ گيا ہے کہ بہت سے سوالات عوامی سطح پر پوچھے جائيں۔ پروفيسر کے مطابق، ’’جرمنی ميں سياستدانوں، عوام اور کاروباری شخصيات کی اکثريت ميں يہ تاثر پايا جاتا ہے کہ اميگريشن کے معاملے ميں کچھ ہے جو درست نہيں ہے۔‘‘

تھائم کے بقول اس صورتحال سے يہ کہہ کر نمٹا جا سکتا ہے کہ اب نئے قوانين بنائے جائيں گے۔ اس طرح عوام کو بھی يہ موقع ملے گا کہ وہ اس بارے ميں بات کر سکيں اور يہ بات چيت صرف اسلام اور مہاجرين کے تناظر ميں نہ ہو بلکہ يہ بھی پتا چلے کہ جرمنی کو اميگريشن کی ضرورت بھی ہے۔

يہ امر بھی اہم ہے کہ تعليم يافتہ افراد کے ليے جرمنی کے اميگريشن قوانين کافی نرم ہيں، گو کہ بہت سے لوگ اس حقيقت سے آگاہ نہيں۔ تھائم کے بقول اس سلسلے ميں بيوروکريسی گھٹانے کی ضرورت ہے بالخصوص يورپی يونين سے باہر کے ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکين وطن کے ليے۔

جرمن شہر کولون کے اکنامک انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ويڈو گائس نامی سينئر اقتصادی تجزيہ کار کا کہنا ہے کہ جرمنی کا ايک بڑا مسئلہ يہی رہا ہے کہ يہاں تعليم و تربيت يافتہ ٹيکنيشيئنز کی قلت ہے اور يہ صورتحال مستقبل قريب ميں اور بھی گھمبير ہوتی چلی جائے گی۔ ان کے بقول اس کمی کو پورا کرنے کے ليے جرمنی کو يورپی يونين سے باہر کے ملکوں سے تعلق رکھنے والے ہنر مند افراد کی ضرورت بھی پڑے گی۔

’پاکستانيوں کے ليے يورپ ہجرت کے قانونی مواقع موجود ہيں‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید