1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنوں کا جرمنی کے فلاحی ریاست ہونے پر اعتماد ختم ہوتا ہوا

8 اگست 2018

جرمنی میں عام شہریوں کی ایک بڑی اکثریت کا اپنے ملک جرمنی کے ایک فلاحی ریاست ہونے پر اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جرمنی کی ایک بہت بڑی ملک گیر فلاحی تنظیم کے مطابق جرمن سماجی پالیسیوں میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/32pgR
بہت سے سماجی ماہرین کے مطابق یہ تصویر جرمنی میں ایک شرمناک حقیقت کی عکاس ہےتصویر: picture-alliance/dpa

یورپ کی سب سے بڑی معیشت اور یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں سماجی مساوات اور انصاف کے لیے سرگرم ایک بڑی ملک گیر تنظیم PGV یا Paritätische Gesamtverband کے مطابق ماضی میں جرمن باشندوں کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ ان کا وطن بنیادی طور پر ایک فلاحی ریاست ہے۔ اب لیکن یہ عوامی اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

اس تنظیم کے مطابق جرمن معاشرے میں سماجی پالیسیوں کے شعبے میں وسیع تر اصلاحات کی اشد ضرورت ہے اور اس کے لیے حکومت کو فوری طور پر اربوں یورو کی سرمایہ کاری کرنا چاہیے۔ اس تنظیم کی جاری کردہ تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ جرمن معاشرے کے ایک بڑے حصے کا جرمنی کے ایک عوامی فلاحی ریاست ہونے پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔

اس تنظیم نے کہا ہے، ’’جرمن فلاحی ریاست پر عوامی اعتماد کی یہ کمی جرمنی میں سماجی وحدت اور انضمام کے عمل کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔‘‘ اس صورت حال میں تبدیلی کے لیے نہ صرف حکومتی سماجی پالیسیوں میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے بلکہ یہ امر بھی ناگزیر ہے کہ حکومت سماجی شعبے میں کم از کم بھی 50 ارب یورو (قریب 58 ارب امریکی ڈالر) کی سرمایہ کاری کرے۔

Infografik Die Prioräten der Deutschen EN
جرمن باشندوں کی خواہشات اور ترجیحات، ایک حالیہ عوامی جائزے کے نتائج

اس تنظیم کے سربراہ رولف روزن شٹوک نے یہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے برلن میں صحافیوں کو بتایا، ’’حکومت کی طرف سے ایسے سیاسی اقدامات کی کمی ہے، جن کی مدد سے خاص طور پر ان افراد کی مدد کی جا سکے، جنہیں سماجی سطح پر باقی ماندہ معاشرے سے کٹ کر رہ جانے کا خطرہ ہے۔ ان میں بے روزگار جرمن شہری بھی شامل ہیں، دیہی علاقوں کی آبادی بھی اور وہ بزرگ باشندے بھی جن میں غربت کی اوسط شرح مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے۔‘‘

رولف روزن شٹوک نے صحافیوں کو بتایا، ’’وہ سماجی تقسیم جو عام لوگوں کو عدم تحفط کا احساس دلاتی ہے اور جس کی وجہ سے ملک میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، اس کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جانا چاہیے۔‘‘

ساتھ ہی انہوں نے حکومت اور سیاسی جماعتوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’اگر اس سماجی تقسیم کا تدارک نہ کیا گیا، تو یہ فرق اس خیلج کو مزید گہرا کر دے گا، جو ملکی اشرافیہ اور ان طبقات میں پائی جاتی ہے، جنہیں سماجی طور پر محرومی کے شکار اور ہار جانے والے شہری کہا جاتا ہے۔‘‘

@dw_stories Armut in Deutschland Berlin Flaschensammler
’اگر موجودہ سماجی تقسیم کا تدارک نہ کیا گیا، تو ملکی اشرافیہ اور محروم طبقات کے مابین پائی جانے والی خلیج مزید گہری ہو جائے گی‘تصویر: DW/Shamsan Anders
@dw_stories Armut in Deutschland Berlin Obdachlose
تصویر: DW/Shamsan Anders

پی جی وی کی اس سالانہ رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی گئی ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہے کہ حکومت کو عام کارکنوں کے لیے کم از کم اجرت موجودہ 8.84 یورو فی گھنٹہ سے بڑھا کر 12 یورو فی گھنٹہ کر دینا چاہیے۔

اس کے علاوہ ضرورت مند شہریوں کو ریاست کی طرف سے دی جانے والی بنیادی سماجی امداد کی مالیت بھی موجودہ 416 یورو ماہانہ سے بڑھا کر 571 یورو کی جانا چاہیے۔

رولف روزن شٹوک کے مطابق اس وقت جرمنی میں سماجی مالی امداد پر گزر بسر کرنے والے چھ ملین شہریوں میں سے تین چوتھائی ایسے ہیں، جن کے پاس کوئی روز گار نہیں، یا وہ بچے ہیں یا سنگل والدین یا پھر جسمانی معذوری کے شکار ایسے شہری، جن کے لیے 416 یورو ماہانہ کی ریاستی مالی امداد کے ساتھ زندہ رہنا انتہائی مشکل ثابت ہوتا ہے۔

م م / ع ا / ڈی پی اے، کے این اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید