1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن پولیس کا مذبح خانوں پر چھاپہ

23 ستمبر 2020

ان دنوں کووڈ 19 کے ساتھ ساتھ جرمن میڈیا کا مرکزی موضوع گوشت کی صنعت میں کام کرنے والوں کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ مذبح خانوں میں پھیلنے والا کورونا وائرس اور اس کےسبب پیدا ہونےوالی مہلک بیماری کووڈ 19 ہے۔

https://p.dw.com/p/3itBU
Coronavirus - Ausbruch bei Tönnies
تصویر: Imago Images/biky/M. Stepniak

 

رواں برس جہاں جرمنی کی مختلف صنعتوں کو کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں پھیلنے والی بیماری کووڈ انیس کے سبب بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے، وہاں 'میٹ انڈسٹری‘ سے متعلق چند ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جن کا تعلق براہ راست غیر فانونی تارکین وطن ورکرز اور ان کی روزمرہ زندگی کی تشویشناک صورتحال سے ہے۔ کورونا کی وبا کے پھیلاؤ سے یورپ کے دیگر ممالک کی طرح جرمن کاروبار اور صنعت بھی بری طرح متاثر ہوئی اور حکام کی نگاہیں اُن 'ہاٹ اسپاٹس‘ پر پڑنا شروع ہوئیں جن پر اب تک نہ تو حکومتی انتظامیہ نہ ہی حفظان صحت کے نگراں اداروں کی کوئی خاص توجہ تھی۔

مذبح خانے کیوں عتاب میں

جرمنی کی گوشت کی صنعت کے معاملات دیگر صنعتوں کے مقابلےمیں زیادہ حساس تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کی وجوہات میں سے ایک کا تعلق جرمنی کی تارکین وطن کارکنوں سے متعلق پالیسی سے ہے۔ دوسرے یہ کہ مذبح خانوں میں حفظان صحت کے اصولوں اور قوائد کو اگر نظر انداز کیا جانے لگے تو معاشرے میں متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ اور صحت عامہ کے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔ بالآخر حکام کو سختی سے صورتحال کا نوٹس لینا پڑتا ہے اور بسا اوقات ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جو حکام اور عوام دونوں کے لیے پریشان کن ہوتے ہیں۔ کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک طرف عوام میں کووڈ 19 جیسی موذی بیماری کا خوف پیدا ہوا، دوسری جانب جرمنی میں غیر قانونی طور پر غیر ملکی باشندوں سے مزدوری کروانے والوں کے بہت سے راز فاش ہوئے۔

Deustchland Arbeit im Schlachthof
جرمن صوبے سکسنی انہالٹ کا ایک مذبح خانہ۔تصویر: Imago Images/Westend61

جرمن پولیس نے مذبح خانوں پر چھاپے مارے اور انہیں پتا چلا کہ بہت سے مذبح خانوں میں کام کرنے والے کارکنوں کو جرمنی لانے اور انہیں مذبح خانوں میں کام دلوانے کے ذمہ دار وہ ذیلی ٹھیکیدار ہیں جو اس صنعت کے لیے تارکین وطن ورکرز کی اسمگلنگ کر رہی ہیں۔

تازہ ترین چھاپے  

بُدھ 23 ستمبر کی صبح جرمنی کی پانچ ریاستوں میں قریب 800 پولیس اہلکاروں نے 40 مختلف مقامات پر چھاپے مارے۔ اس کارروائی کا نشانہ جو کمپنیاں بنیں ان پر یہ الزام عائد ہے کہ وہ جعلی دستاویزات کے ذریعہ مشرقی یورپ سے ورکرز کو جرمنی لاتی ہیں۔ ان کمپنیوں کے نام ابھی تک ظاہر نہیں کیے گئے تاہم جرمن پولیس کے ایک ترجمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''حکام چند اندھیرے مقامات پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔‘‘

پولیس نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں جعلی دستاویزات کے ساتھ سفر کر کے جرمنی کے بارڈر پر رک جانے والے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پولیس کے مطابق چھاپے بنیادی طور پر مشرقی جرمن ریاست سیکسنی انہالٹ کے مختلف مقامات پر مارے گئے۔ اس کے علاوہ برلن، نارتھ رائن ویسٹ فیلیا، لوئر سیکسنی اور سیکسنی میں بھی انسانی کی اسمگلنگ کرنے والے ذیلی ٹھیکیداروں کی تلاشی کی مہم جاری ہے۔  

Coronavirus - Ausbruch bei Tönnies
’ٹونیز‘ نامی مذبح خانے کا اسکینڈل سب سے زیادہ اخباروں کی سرخیوں کا موضوع بنا۔تصویر: Imago Images/biky/M. Stepniak

غیر قانونی ورکرز کے کام کے حالات پر نظر

 

جرمن پولیس اور تفتیشی کارروائی کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے لیے اس وقت ذیلی ٹھیکیداروں کے ذریعے غیر قانونی طور پر جرمنی آکر کام کرنے والوں کی روزمرہ زندگی کی صورتحال کا جائزہ لینا سب سے اہم بات ہے۔ ان تحقیقات کے لیے سیکسنی انہالٹ کے پبلک پراسیکیوٹر کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیشن تشکیل دیا گیا، جسے اپریل 2020ء میں قائم کیا گیا تھا کیونکہ اس سے قبل جرمنی میں گوشت کی پیکنگ کے گوداموں میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے سلسلہ وار واقعات سامنے آئے تھے۔ ان واقعات کی چھان بین سے یہ انکشاف ہوا کہ ان گوداموں میں غیرقانونی طور پر کام کرنے والوں کو انتہائی بوسیدہ اور تنگ کواٹرز میں رہنے کی جگہ فراہم کی گئی تھی جہاں یہ ناگفتہ بہ صورتحال میں زندگی بسر کر رہے تھے۔

رواں برس جون میں مغربی جرمن شہر گوئٹرس لو میں میں مذبح خانے 'ٹونیز‘ میں بڑے پیمانے پر کووڈ انیس بیماری کے پھیلنے کے نتیجے میں ہزاروں افراد اس بیماری کا شکار ہوئے تھے اور اس کے نتیجے میں حکام نے اس شہر اور اس کے پڑوسی ضلع کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کر دیا تھا۔

اُس کے بعد ٹونیز فیکٹری کے ایک سابقہ کارکُن نے جن کا تعلق رومانیا سے تھا، ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ذیلی ٹھیکیداروں کے ذریعے اسمگل ہو کر جرمنی آنے والے غیر قانونی ورکرز کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ انہوں نے کام کی صورتحال کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کارکنوں سے مقررہ وقت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ انہیں کوئی اوور ٹائم نہیں ملتا اور یہاں تک کہ بیماری کی حالت میں بھی انہیں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔   

Deutschland Arbeiter in Schlachthof
زیادہ تر مشرقی یورپی ممالک کے ورکرز جعلی کاغذات کے ساتھ جرمن فیکٹریروں میں کام کرتے ہیں۔ تصویر: Getty Images/S. Gallup

اصلاحات کے حکومتی وعدے


کئی دہائیوں سے، جرمنی میں گوشت فراہم کرنے والی کمپنیاں کم اجرت والے ممالک جیسے رومانیہ، بلغاریہ اور پولینڈ کے ہزاروں کارکنوں کو ملازمت دے کر اپنے اخراجات کم رکھے اور زیادہ منافع کمانے کی ہوس میں رہیں۔ کارکنوں کو براہ راست ملازمت دینے کی بجائے، کمپنیاں اکثر ذیلی معاہدہ فرموں کے مبہم، کثیر الجہتی نیٹ ورکس پر انحصار کرتی ہیں۔

جولائی میں، جرمن حکومت نے ایک بل کی منظوری دی تھی جس کے تحت جرمنی کی گوشت کی صنعت میں ذیلی ٹھیکیداروں پر پابندی  لگانے کی بات کی گئی تھی اور اس طرح کمپنیوں پر براہ راست کارکنوں کو اجرت دینے اور ان کی خدمات حاصل کرنے پر زور دیا گیا تھا۔  توقع ہے کہ یہ بل جنوری 2021ء میں نافذ العمل ہوجائے گا۔
اس بل میں یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ جب کسی بھی گوشت پروسیسنگ کمپنی میں 50 یا زیادہ کارکن ہوں تو صرف ان کارکنوں کو جانوروں کو ذبح  کرنے اور ان کے گوشت کو پروسس کرنے کی اجازت ہوگی جو براہ راست کام حاصل کر کے آئے ہوں۔

ک م / ا ب ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں