1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جانوروں کی بہبود کی بات تو ہوتی ہے، ورکرز کی نہیں‘

14 مئی 2020

جرمنی کے سب سے بڑے مذبحہ خانے کے سینکڑوں ورکرز میں کورونا وائرس کی تصدیق نے اس صنعت میں کام کرنے والے غیر ملکی ورکرز کی حق تلفیوں کو بھی عیاں کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3cCcE
تصویر: Getty Images

جرمن مذبحہ خانے میں کورونا نے، غیر ملکی ورکرز کی حالت زار عیاں کردی

جرمنی کے شمال مشرقی حصے میں واقع ''ویسٹ فلائش سلاٹر ہاؤس‘‘ میں کام کرنے والے کم از کم 260 ورکرز میں حالیہ دنوں کے دوران کووڈ انیس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن کو بتدریج ختم کرنے کے عمل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے بلکہ گوشت کی صنعت میں کام کرنے والے غیر ملکی مزدوروں کی حالت زار بھی دنیا کے سامنے عیاں کر دی ہے۔

یہ مذبحہ خانہ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر کوئس فیلڈ کے نواح میں واقع ہے۔

بھارت، متعدد مذبح خانے بند، گوشت اور چمڑے کی صنعت متاثر

اونٹ کا گوشت: آسٹریلیا بڑا برآمد کنندہ بن سکتا ہے

متاثر ہونے والے زیادہ تر ورکرز مشرقی یورپی تارکین وطن

ویسٹ فلائش کے ورکرز کی بڑی تعداد میں کووڈ انیس کی تصدیق ہونے کے بعد حکام نے جب اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے اقدامات شروع کیے تو معلوم ہوا کہ اس مہلک مرض میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر ورکرز یا مزدور مشرقی یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد ہیں جو کام کی تلاش میں جرمنی کا رُخ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو ایسی کنٹریکٹر کمپنیاں ملازمت دیتی ہیں جو ویسٹ فلائش سلاٹر ہاؤس جیسے بڑے اداروں کو ورک فورس فراہم کرتی ہیں۔ یہی کنٹریکٹر ان ورکرز کو رہائش کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں اور کام پر آنے جانے کے بس سروس بھی۔

Symbolbild Schlachthof Fleisch Skandal
جرمنی میں مذبحہ خانوں میں غیرملکیوں کی بڑی تعداد کام کرتی ہےتصویر: Getty Images

کوئس فیلڈ کے متاثرہ مذبحہ خانے میں کام کرنے والے ورکرز میں للیان بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنا پورا نام بتانے سے احتراز کیا تاکہ اسے کسی مشکل کا سامنا نہ کرنے پڑے۔

رومانیہ کے غریب علاقے سے تعلق رکھنے والے 48 سالہ للیان نے تربیت تو بڑھئی کے کام کی حاصل کر رکھی ہے مگر وہ مذبحہ خانے میں کام کرنے سے قبل جرمنی کی ایک کوریئر کمپنی میں بھی کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے پرانی تنخواہ سے بہتر کے وعدے پر ویسٹ فلائش میں حال ہی میں نوکری کی تھی۔

کوئس فیلڈ سے 15 منٹ کی ڈرائیو پر واقعے اس رہائش گاہ کے باہر لوہے کی جالی دار باڑ لگا دی گئی ہے جہاں للیان جیسے بہت سے ورکرز مشترکہ طور پر رہائش پذیر ہیں۔ اس حفاظتی باڑ کا مقصد ان ورکرز کو اپنی رہائش گاہ سے نکلنے سے روکنا ہے۔

للیان اور اس رہائش گاہ کے دیگر باسیوں کے کورونا ٹیسٹ چار روز قبل لیے گئے تھے اور بدھ کے روز تک وہ ان ٹیسٹس کے نتائج کا انتظار کر رہے تھے۔

لوہے کی اس باڑ کے پیچھے سے اپنی حالیہ صورتحال کے بارے میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے للیان کا کہنا تھا کہ یہ ''جیل کی طرح ہے … جیسے ایک شیر کو پنجرے میں قید کر دیا گیا ہو۔‘‘

للیان کو اس بات کی بھی فکر ہے کہ وہ اس رہائش گاہ کا حالیہ مہینے کا کرایہ بھی ادا کر پائیں گے یا نہیں کیونکہ سلاٹر ہاؤس میں کام روک دیا گیا ہے اور یہ واضح نہیں کہ اسے اس کے باوجود تنخواہ بھی ملے گی یا نہیں۔

چانسلر میرکل بھی ویسٹ فلائش کی 'الارمنگ نیوز‘ پر پریشان

’ویسٹ فلائش سلاٹر ہاؤس‘ کے ورکرز کی اتنی بڑی تعداد میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے کے معاملے کی گونج دارالحکومت برلن تک پہنچ چکی ہے جہاں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بدھ 13 مئی کو اس خبر کو ایک 'الارمنگ نیوز‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ''اس معاملے میں کوتاہیاں ہوئی ہیں … یہ بات اب ہم سب کے سامنے آ چکی ہے …اور اب یہ دیکھنا ہو گا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔‘‘

جرمن چانسلر کا مزید کہنا تھا، ''میں ایک بات آپ کو بتا دینا چاہتی ہوں کہ ہم نے جو کچھ بھی دیکھا میں اس پر مطمئین نہیں ہوں۔‘‘

بھارت: لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ گوشت کھانے کو ترس گئے

لاک ڈاؤن کو بتدریج ختم کرنے کا سلسلہ روکنے پر اتفاق

جرمن صوبہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں واقع مذبحہ خانے کے ورکرز میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا معاملہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اس اتفاق رائے سے ذرا دیر ہی پہلے سامنے آیا تھا کہ لاک ڈاؤن کے بتدریج خاتمے کے سلسلے کو فی الفور روکا جائے۔ یہ فیصلہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہر ایک لاکھ شہریوں میں سے 50 افراد میں کورونا انفیکشن کی تصدیق ہونے کے بعد کیا گیا ہے۔

نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی حکومت نے جہاں کوئس فیلڈ شہر بھی واقع ہے، حکم دیا ہے کہ گوشت کی صنعت سے وابستہ تمام قریب 20 ہزار ورکرز کا کورونا وائرس ٹیسٹ کیا جائے۔ ساتھ ہی اس صوبے میں ریستوران اور بارز وغیرہ کھولنے کا فیصلہ مزید ایک ہفتے کے لیے مؤخر کر دیا ہے۔

’جانوروں کی بہبود کی تو بات تو کی جاتی ہے مگر ورکرز کی نہیں‘
 

غذائی صنعت میں کام کرنے والے مزدوروں کی نمائندہ یونین NGG سے تعلق رکھنے والے اولاف کلینکے کا کہنا ہے کہ ویسٹ فلائش کے ورکرز میں کورونا کا پھیلاؤ شاید بہترین موقع ہے کہ گوشت کی صنعت میں آؤٹ سورسنگ یا ٹھیکے داری نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''کورونا بحران نے محض اس صورتحال کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے جو اس میدان میں موجود ہے۔‘‘

کلینکے کے مطابق، ''ہم اکثر اس صنعت میں جانوروں کی بہبود کی بات تو کرتے ہیں، مگر اس صنعت میں کام کرنے والوں پر کیا بیتتی ہے، کم از کم اس کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔‘‘

کوئس فیلڈ کے سلاٹر ہاؤس نے پورے ملک کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے لیکن حالیہ کچھ عرصے کے دوران ملک بھر کے مذبحہ خانوں میں کام کرنے والے دیگر ورکرز کے کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔ ابھی تک اس صنعت سے تعلق رکھنے والے کسی مزدور کی تو اس بیماری کے سبب موت نہیں ہوئی لیکن گزشتہ ماہ رومانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک 57 سالہ ورکر کی کووڈ انیس کے سبب گزشتہ ماہ موت ہو چکی ہے جو فارم میں کام کرتا تھا۔

ا ب ا/ ع ت (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)