1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن پولیس قانون میں تبدیلی، نگرانی زیادہ ہو گی

8 جولائی 2018

جرمن پولیس قانون میں تبدیلی کے موضوع پر ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اب عام شہریوں کی نگرانی میں اضافہ ہو گا جب کہ نسلی بنیادوں پر شہریوں کو ممکنہ طور پر زیادہ تفریق کے رویے کا سامنا ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3129p
Grenzkontrolle in Bayern
تصویر: Getty Images/C.Stache

عارضی طور مفلوج کر دینے والی گن، وٹس ایپ نگرانی اور پولیس کی کارروائیوں میں اضافہ، جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی حکومت نے سکیورٹی کے حوالے سے انتظامات سخت تر کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کا منصوبہ بنایا ہے۔

اس قانونی مسودے کے سامنے آنے کے بعد عوامی سطح پر اس پر خاصی تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کے تحت پولیس کو بہت زیادہ اختیارات تفویض کر دیے گئے ہیں۔

تارکین وطن کا جرمن پولیس پر ’غیر انسانی رویہ‘ برتنے کا الزام

داعش کی ’اخلاقیات کی نگران‘ جرمن نو مسلمہ گرفتار

اس جرمن صوبے کی سابقہ حکومت کو سلامتی کے متعدد ناقص انتظامات کے تناظر میں شدید تنقید کا سامنا تھا، جس میں کولون میں سن 2016 کے آغاز کے موقع پر خواتین پر جنسی حملوں کے تناظر میں ریاستی حکومت کا ردعمل اور برلن میں کرسمس مارکیٹ پر ٹرک حملہ کرنے والے انیس عامری کی نگرانی سے متعلق ڈیٹا ملکی سکیورٹی اداروں سے بانٹنے جیسے معاملات شامل تھے۔

انہی امور کی وجہ سے اس صوبے پر ایک طویل عرصے سے حکمران رہنے والی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی گزشتہ انتخابات میں شکست کھا گئی تھی اور اب اس صوبے میں کرسچین ڈیموکریٹک یونین، فری ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت کر رہی ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس کے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے پولیس کو زیادہ طاقت اور اختیارات دینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تاکہ صوبے بھر میں سکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنایا جائے۔

اس قانونی مسودے میں ’ممکنہ خطرے‘ کی بابت نہایت مبہم زبان استعمال کی گئی ہے جب کہ احتیاطی طور پر کسی شخص کو زیرحراست رکھنے کی مدت بھی بڑھانے کی تجویز کی گئی ہے۔ اس وقت کسی شخص کو شک کی بنیاد پر 48 گھنٹوں کے لیے زیرحراست رکھا جا سکتا ہے، تاہم اس قانون میں تجویز دی گئی ہے کہ ایسی صورت میں کسی مشتبہ شخص کو ایک ماہ تک حراست میں رکھا جائے۔

نئے قانونی مسودے میں ویڈیو اور وٹس ایپ نگرانی میں اضافے کی تجویز بھی دی گئی ہے جب کہ پولیس کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ بغیر کسی واضح شک کے کسی علاقے میں 28 روز تک کسی بھی شخص کو روک کر تلاشی لے سکتی ہے۔

ع ت / ع الف / روئٹرز / اے ایف پی