1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکین وطن کا جرمن پولیس پر ’غیر انسانی رویہ‘ برتنے کا الزام

6 جولائی 2018

جرمنی کے مشرقی شہر کوٹبُس میں مقیم چیچنیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد کا کہنا ہے کہ جرمن پولیس نے انہیں ایک جھگڑے کے بعد دوران حراست کپڑے اتارنے پر مجبور کیا۔ شہری انتظامیہ نے تاہم اس دعوے کی تردید کی ہے۔

https://p.dw.com/p/30xeR
Deutschland Polizeieinsatz in Flüchtingsunterkunft in Cottbus
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Helbig

جرمنی کے مشرق میں واقع قریب ایک لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی و الا کوٹبُس نامی شہر ایک مرتبہ پھر مہاجرین سے متعلق ایک تنازعے کی زد میں ہے۔ اس شہر میں مقیم چیچنیا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کے پچیس سے زائد خاندانوں نے ایک کھلا خط تحریر کیا ہے۔ اس اجتماعی کھلے خط میں مقامی پولیس اور سیاست دانوں پر ناجائز اور نسل پرستی پر مبنی رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

اس خط میں کوٹبُس میں مقیم سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے تحفظات کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں مہاجرین کے سماجی انضمام سے لے کر الگ رہائش کے حصول تک کئی طرح کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مہاجرین کی رہائش گاہوں میں عام طو پر مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن ایک ہی جگہ رہتے ہیں اور ان کے مابین جھگڑوں کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔

پولیس کا ’غیر انسانی رویہ‘

گزشہ ماہ کی بارہ اور تیرہ تاریخ کو کوٹبُس میں تارکین وطن کی ایک ایسی ہی رہائش گاہ میں افغانستان اور چیچنیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے چیچنیا سے تعلق رکھنے والے دو درجن سے زائد تارکین وطن کو حراست میں لے لیا تھا۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ پولیس نے دوران حراست ان کے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار کیا۔

ان تارکین وطن کا دعویٰ ہے کہ حراست کے دوران پولیس نے دوا کھانے کے لیے پانی طلب کرنے والے افراد کو پانی مہیا کرنے سے انکار کر دیا اور احتجاج کرنے والوں کو سزا دی۔ اس خط کے مندرجات کے مطابق، ’’پانی مانگنے پر ایک شخص کی پتلون اتروا دی گئی اور باقی وقت اسے صرف انڈرویئر میں قید رکھا گیا۔‘‘

علاوہ ازیں پناہ کے متلاشی ان افراد نے یہ بھی کہا ہے کہ جھگڑے والے دن کے بعد اسائلم سینٹر پر مارے گئے چھاپے کے دوران پولیس نے ایک مہاجر خاتون پر اس کی بیٹی کے سامنے بندوق تان لی، جس کی وجہ سے مہاجر بچی ’صدمہ زدہ‘ ہو گئی۔

شہری انتظامیہ کا موقف

کوٹبُس شہر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ان تارکین وطن کی شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے مذاکرات کرنے کو تیار ہے، تاہم تارکین وطن میں سے کئی نے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کوٹبُس شہر کی انتظامیہ کے ترجمان ژان گلوسمان کا کہنا تھا، ’’آپ ہم سے بات کر سکتے ہیں، آپ کو صرف متعلقہ ادارے کے پاس جانا ہے اور یہ بات سبھی جانتے ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ الزام بھی مسترد کر دیا کہ شہر میں مہاجرین کے لیے قائم کردہ رہائش گاہوں کی صورت حال خراب ہے، گلوسمان کے مطابق، ’’یہ بالکل نارمل اپارٹمنٹ ہیں، جہاں ریٹائر ہونے کے بعد کئی جرمن بھی مقیم ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ کچھ تارکین وطن کو پھر بھی یہ ناکافی لگ رہے ہیں۔‘‘

ش ح/ م م (ربیکا اشٹاؤڈنمائر)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید