جرمن شیفرڈ کلب، اس نسل کے کتوں سے محبت کا ایک انداز
8 مارچ 2011پاکستان میں باقاعدہ ’’پاکستان جرمن شیفرڈ کلب‘‘ بھی موجود ہے، جو گزشتہ کئی سالوں سے باقاعدگی کے ساتھ ان کتوں کی سالانہ چیمپئن شپ کا انعقاد بھی کراتا ہے۔ اس کلب کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان بھر سے جرمن شیفرڈ کے مالکان اس سالانہ چیمپئن شپ میں حصہ لیتے ہیں۔ اس مرتبہ اسلام آباد میں منعقد ہونے والی چیمپئن شپ کی خاص بات جرمنی کے شہر میونخ سے آئے ہوئے جرمن شہری پیٹرآرتھ کی بطور جج شرکت تھی۔ پیٹر آرتھ پیشہ کے لحاظ سے ایک الیکٹریکل انجینئر ہیں اور آجکل ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلی مرتبہ پاکستان آئے اور انہیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ جرمن شیفرڈ کی مقامی سطح پر افزائش نسل بہترین طریقے سے کی جا رہی ہے۔ پیٹر آرتھ کے مطابق جرمن شیفرڈ بہت سی خوبیوں کا مالک ہے لیکن اس کی سب سے بڑی خوبی اس کی جرات مندی ہے۔
پاکستان جرمن شیفرڈ کلب کے صدر عمران حسین کا کہنا ہے کہ جرمن شیفرڈ نہ صرف گھروں میں انتہائی شوق سے رکھا جاتا ہے بلکہ انسداد منشیات، حفاظتی پہرے اور قدرتی آفات مثلاً زلزلے اور سیلاب وغیرہ کے دوران گمشدہ افراد کی تلاش میں بھی مدد دیتا ہے۔ عمران حسین کے مطابق پاکستان میں جرمن شیفرڈ کے شائقین کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جرمن شیفرڈ کلب نہ صرف خواہشمند مالکان کی ممبرشپ بھی کرتا ہے بلکہ آئندہ ماہ سے کتوں کی نسل کی تصدیق اور چوری کی صورت میں تلاش میں مدد کے لیے ڈی این اے کی سہولت بھی شروع کر رہا ہے۔
کمال اکمل بھی ایک ایسے ہی شوقین ہیں، جو گزشتہ 20 سالوں سے جرمن شیفرڈ پال رہے ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ایک کتے پر ماہانہ 5 سے 20 ہزار روپے تک کا خرچ آتا ہے اور اگر یہ بیمار ہوجائے تو اخراجات میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ کمال اکمل کا کہنا ہے کہ جرمن شیفرڈ کو مقامی طور پر رکھنے میں سب سے بڑا مسئلہ گرم درجہ حرات ہے۔’’ گرمیوں میں جرمن شیفرڈ کو رکھنے کے لیے خصوصی طور پر ٹھنڈی جگہوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر نثار بھی جرمن شیفرڈ کے مالک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مقامی سطح پر افزائش نسل بالکل جرمنی جیسی تو ممکن نہیں لیکن 80 سے 90 فیصد تک جرمن معیار برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پاکستان جرمن شیفرڈ کلب کے صدرعمران حسین کا کہنا ہے کہ جرمن شیفرڈ چیمپئن شپ جیسے ایونٹس کے انعقاد سے نہ صرف اندرون ملک لوگوں کو تفریح کے مواقع میسر آتے ہیں بلکہ بیرون ملک بھی پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والوں کو پاکستان اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں براہ راست آگاہی ہوتی ہے۔ پیٹر آرتھ بھی عمران حسین کی اس بات سے متفق ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہاں آنے سے پہلے انہوں نے بھی بہت سی ایسی باتیں سن رکھی تھیں، جو زیادہ مثبت نہیں تھیں۔ لیکن پاکستان آ کر اور یہاں کے لوگوں سے مل کرانہیں بہت اچھا لگا۔ پیٹر کا کہنا تھا کہ وہ جرمنی جا کر لوگوں کو بتائیں گے کہ پاکستانی لوگ بہت ملنسار، ہمدرد اور سب سے بڑھ کر جرمن شیفرڈ سے بھی محبت کرنے والے ہیں۔
رپورٹ : شکور رحیم
ادارت: عدنان اسحاق