1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

جبری تبدیلی مذہب کا بل: مذہبی جماعتوں کی طرف سے مزاحمت

عبدالستار، اسلام آباد
21 ستمبر 2021

جبری تبدیلی مذہب کا بل ابھی صرف گردش میں ہی ہے کہ ملک کے قدامت پسند حلقوں نے اس کی بھرپور مخالفت کا عندیہ دے دیا ہے جبکہ ملک کےلبرل اور اقلیتی حلقے بل کو قائد اعظم کی تعلیمات کا عکاس قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/40bjr
تصویر: Jan Ali Laghari/Pacific Press/picture alliance

واضح رہے اس بل کے مندرجات پر مشاورت کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک اجلاس جمعہ کو بلایا تھا۔ بل پر کونسل کے تحقیقاتی ادارے نے تحقیق بھی کی ہے اور اسے وزارت مذہبی امور کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔ اقلیتی کارکنوں کے مطابق بل میں مذہب تبدیل کرنے کے لیے اٹھارہ سال کی عمر کی شرط عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور مذہب تبدیل کرنے والے کو تقابل ادیان کا مطالعہ کرنے سے متعلق بھی ایک شق شامل ہے۔

بل کا اسٹیٹس: اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹرقبلہ ایاز کا کہنا ہے سندھ سے کسی رکن قومی اسمبلی نے یہ بل تیار کیا تھا اور پھر اس سلسلے میں اس رکن نے  وزارت انسانی حقوق کی بھی مدد لی۔ ''ابھی اس کا مسودہ گردش میں ہی تھا کہ وزارت مذہبی امور نے کہا کہ وہ بھی اس مسئلے میں اسٹیک ہولڈر ہیں اور مذہبی امور کی وزارت نے پھر بل ہمیں بھیجا۔ جس پر ہمارے تحقیقی شعبے نے اس پر اپنی رائے دی ہے اور بل کو مذہبی امور کی وزرات کو بھیج دیا گیا ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ کونسل کے ارکان کی رائے یہ ہی ہے کہ اسلام میں تبدیلی مذہب کی کوئی عمر مختص نہیں ہے اور نہ عمر کی حد ہے۔

سخت مزاحمت کا اشارہ

ملک کی مذہبی جماعتوں نے بل کی بھرپور مخالفت کا عندیہ دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے بل کو اس کی موجودہ شکل میں منظور کرایا تو اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی  مولانا عبدل اکبر چترالی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بل اسلام اور پاکستان کے آئین کے خلاف ہے اور اسے مغرب زدہ لوگ ملک پر نافذ کر کے پاکستان کے اسلامی تشخص کو بگاڑنا چاہتے ہیں۔ ہم اس بل کی ہر سطح پر مخالفت کرینگے اور یہ مخالفت صرف پارلیمنٹ میں نہیں ہوگی بلکہ گلی اور محلوں میں بھی ہوگی۔ ہم دوسری مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر بھی اس کی مخالفت کرینگے۔''

ان کے مطابق اس بل میں تبدیلی مذہب کی عمر کی حد اٹھارہ سال مقرر کی جارہی ہے۔ ''جب کہ اس کے علاوہ مذہب تبدیل کرنے والے کو اکیس دن تک تقابل ادیان پڑھایا جائے گا۔ یہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں بلکہ انفرادی آزادی کے خلاف بھی ہے۔ اگر کوئی شخص اسلام کو قبول کرنا چاہتا ہے، تو اس میں حکومت کیوں مداخلت کرنا چاہتی ہے۔''

جمعیت علما اسلام فضل الرحمن گروپ نے بھی اس بل کی سخت مخالفت کا عندیہ دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر بل کو منظور کرایا گیا تو پورے ملک میں احتجاج کیا جائے گا۔ پارٹی کے ایک رہنما جلال الدین ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' یہ بل اسلام مخالف ہے، جو این جی اوز اور مغرب کے دباؤ پر بالکل اسی طرح لایا گیا جیسا کہ پہلے گھریلو تشدد اور دوسرے بل لائے گئے۔ کوئی مسلمان اس کی حمایت نہیں کرسکتا۔ ہم اس کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کرینگے۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ جلد ہی مولانا فضل الرحمن اس حوالے سے کوئی اعلان بھی کرینگے۔ ''ہم تمام مذہبی جماعتوں سے رابطے کرینگے اورملک گیر سطح پر بل کی بھرپور مخالفت کرینگے۔''

قائد کی تعلیمات کا عکاس

دوسری طرف پاکستان کی غیر مسلم برادریاں اس بل کی حامی نظر آتی ہے۔ پاکستان ہندو کونسل کے صدر ڈاکٹر جے پال چھابڑیا کا دعویٰ ہے کہ یہ بل آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور اور قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات کا عکاس ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارا موقف یہ ہے کہ تبدیلی مذہب کے لئے اٹھارہ برس کی عمرکی شرط ہونی چاہیے اور اس بات کا مطالبہ خود آل انڈیا مسلم لیگ نے انیسو سینتیس میں کیا جب مسلم لڑکیاں ہندووں سے شادیاں کررہی تھیں اور مذہب بھی تبدیل کررہی تھی۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ قائد اعظم اپنی بیوی کو بہت پہلے سے جانتے تھے لیکن انہوں نے شادی کے لیے اٹھارہ سال کی عمر ہونے کا انتظار کیا۔ ''کیونکہ ان کی بیوی کو بھی مذہب تبدیل کرنا تھا۔ اس لیے ان کی بیوی جب اٹھارہ برس کی ہوئی، قائد اعظم نے اس عمر کے بعد ہی ان سے شادی کی۔ مسئلہ صرف شادی کا ہی نہیں تھا بلکہ تبدیلی مذہب کا بھی تھا۔ تو اٹھارہ برس کی عمر کی شرط قائد کی تعلیمات اور آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبات کی روشنی میں ہے۔''

بھونگ مندر کی تعمیر نو مکمل، پوجا کے لیے تیار

تبدیلی مذہب کا مسئلہ

واضح رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ انہیں جبری تبدیلی مذہب کی بہت سی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ہندو کارکنان کا کہنا ہے کہ ایسی شکایات کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن آزاد ذرائع کے خیال میں یہ شکایات سینکڑوں میں ہو سکتی ہیں۔

اس طرح کے زیادہ واقعات ملک کے جنوبی صوبے سندھ میں رونما ہوئے، جہاں مبینہ طور پر سینکڑوں ہندو لڑکیوں سے زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا۔ عبدالحق عرف میاں مٹھو نامی پیر سندھ کی نامی گرامی سیاسی شخصیت ہیں، جو ماضی میں پی پی پی سے بھی وابستہ رہے۔ ان پر اس طرح کے الزامات لگائے گئے کہ وہ زبردستی ہندو لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرانے میں ملوث رہے ہیں۔ انہیں حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک اجلاس میں بلایا گیا تھا، جس میں تبدیلی مذہب کے مسئلے پر بات چیت کی گئی تھی۔ ان کو مدعو کئے جانے پر سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا تھا اور لوگوں نے کونسل کو اس پر بہت تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ میاں مٹھو سے اس حوالے سے کوئی رائے لی گئی۔ ''بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان پر جرح کی گئی اور ان پر لگنے والے الزامات کے حوالے سے ان سے پوچھا گیا، جس پر انہوں نے اپنا دفاع کیا۔''

’ضلع کرک میں ہندو عبادت گاہ پر حملہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے‘