1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'پاکستان جانے کے بجائے چلتی ٹرین سے کود گئے‘

جاوید اختر، نئی دہلی
14 اگست 2022

ایک 'اسلامی مملکت‘ میں نئی زندگی گزارنے کی امید میں لاکھوں مسلمانوں نے بھارت سے پاکستان ہجرت کی تھی۔ لیکن ایسے ہزاروں مسلمان بھی ہیں، جنہوں نے بھارت کی ہی مٹی میں دفن ہونا پسند کیا۔ محمد رفیع بیدل بھی ان میں سے ایک تھے۔

https://p.dw.com/p/4FJ5N
India Pakistan Partition Timeline
تصویر: picture alliance/AP Photo

محمد رفیع بیدل کی کہانی ایسے ہزاروں مسلمانوں کی اپنے وطن کی مٹی سے محبت کی انوکھی اور دلچسپ داستان ہے، جنہوں نے بظاہر آرام و آسائش کی ایک خوشحال زندگی کے بجائے اپنے آبائی وطن میں ہی رہنا پسند کیا۔

پرانی دہلی کی تاریخی جامع مسجد کے علاقے میں رہنے والے محمد رفیع کو شاعری سے بھی شغف تھا۔ بیدل کے تخلص کے ساتھ ان کا کلام بھی موجود ہے۔ تجارت پیشہ پنجابی برادری سے تعلق رکھنے والے محمد رفیع بیدل کے والد کے سوت کا بڑا کاروبار تھا۔ تقسیم کے بعد جب فسادات شروع ہوئے تو وہ پاکستان چلے گئے۔ ان کے دیگر بھائی اور اہل خانہ بھی پاکستان ہجرت کرگئے۔ لیکن محمد رفیع بیدل کا دل بھارت میں ہی اٹک گیا۔

محمد رفیع بیدل کے بیٹے صحافی اور مصنف طحہٰ نسیم بتاتے ہیں، ''میرے دادا نے اچانک اپنا کارخانہ بند کردیا اور ملازمین کو کہہ دیا کہ میں پاکستان جا رہا ہوں۔ میرے والد نے اس کی مخالفت کی۔ میرے والد کہنے لگے میں تو اپنا وطن نہیں چھوڑوں گا۔‘‘

Rafi Bedil
محمد رفیع بیدلتصویر: privat

طحہٰ نسیم کے مطابق، ''دادا کے جانے کے بعد میرے والد کے بھائیوں نے انہیں بہت مجبور کیا کہ وہ بھی پاکستان چلیں۔ والد صاحب نہایت دل گرفتہ ہوکر چلنے پر آمادہ ہوگئے۔ وہ اتنے اداس تھے کہ جاتے وقت اپنی بیٹھک نما کمرے کا پنکھا تک بند نہیں کیا، دروازے پر صرف کنڈی چڑھا دی اور پرانے قلعے کی طرف چل دیے، جہاں سے ٹرینیں پاکستان جاتی تھیں۔‘‘

لیکن محمد رفیع بیدل کا دل تو دہلی میں ہی لگا ہوا تھا۔ طحہٰ نسیم بتاتے ہیں کہ اس وقت بھاپ کے انجن والی ٹرین ہوا کرتی تھی، ''والد صاحب دروازے پر کھڑے تھے، جیسے ہی ٹرین کی رفتار بڑھنے لگی، وہ ٹرین سے کود گئے اور پرانی دہلی کے تلک بازار میں واقع اپنی بیٹھک میں دوستوں کے پاس پہنچ گئے۔‘‘

Indien Rückblick 70 Jahre Ruinen in Amritsar nach religiösen Unruhen 1947
تصویر: Getty Imagess/Hulton Archive/Keystone Features

مصائب کے دور کا آغاز

طحہٰ نسیم بتاتے ہیں کہ دادا نے دکانیں تو پہلے ہی اونے پونے داموں میں بیچ دی تھیں،''والد صاحب پر ہجرت کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر مکانات بھی میرے والد کے نام نہیں کیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جتنی بھی جائیداد تھی وہ سب کسٹوڈین کے پاس چلی گئی۔ صرف ایک مکان رہ گیا، جس میں وہ رہتے تھے۔‘‘

محمد رفیع بیدل کو اپنی بیوی اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کافی محنت کرنی پڑی۔ ایک زمانے میں ان کے یہاں درجنوں افراد ملازمت کرتے تھے لیکن حالات نے انہیں دوسروں کی ملازمت پر مجبور کردیا۔ طحہٰ نسیم کے مطابق ان کی والدہ، جو ابھی باحیات ہیں، بتاتی ہیں کہ والد صاحب 150روپے کی ملازمت کے لیے 50 کلومیٹر دور فریدآباد جایا کرتے تھے اور گھر سے بس اسٹیشن تک پیدل ہی جاتے تھے تاکہ رکشہ کے 25 پیسے بچا سکیں۔

'مجھے تو وطن کی مٹی عزیز ہے‘

رفیع بیدل کے والد نے انہیں پاکستان لانے کی ایک اور کوشش کی۔ یہ خبر بھجوائی کہ تمہارے لیے 1500گز پر مشتمل ایک کوٹھی خریدی ہے۔ ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھی بھجوا دیا۔ طحہٰ نسیم بتاتے ہیں، ''والد صاحب اپنے ابا کے حکم پرکراچی گئے تو ضرور، لیکن صرف 16 دن بعد ہی واپس لوٹ آئے اور کہا کہ وہ تو دہلی میں ہی رہیں گے۔‘‘

والد کے انتقال کے بعد دادی نے والدہ کو خط لکھا کہ اب تو بچوں کو لے کر پاکستان چلے آؤ۔ لیکن والدہ نے کہا، ''جب میرے شوہر نے انکار کردیا تو میں بھی نہیں جا سکتی۔" محمد رفیع بیدل کا 1972میں انتقال ہوگیا اور وہ پنجابی برادری کے قبرستان سدی پورہ میں آسودہ خاک ہیں۔

Indien Islam Opferfest Eid al-Adha
تصویر: Anushree Fadnavis/REUTERS

’ہم بھارت میں خوش ہیں‘

طحہٰ نسیم کے رشتہ دارکراچی میں رہتے ہیں اور ان کے تایا اور تایازاد کی جوڑیا بازار میں کئی دکانیں ہیں اور بہت بڑا کاروبار ہے۔ لیکن محمد رفیع بیدل کو اپنے فیصلے پر کبھی افسوس نہیں ہوا۔ طحہٰ نسیم اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے کئی مرتبہ کراچی جا چکے ہیں۔

پاکستان کے بارے میں ان کا کیا تاثر ہے؟ اس کے جواب میں وہ ایک مشہور واقعہ سناتے ہیں، ''دارالعلوم دیوبند کے مہتمم معروف عالم دین قاری محمد طیب جب لوگوں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود یہ کہتے ہوئے پاکستان چلے گئے کہ ایک اسلامی ریاست قائم ہوچکی ہے لہذا میں وہاں جاؤں گا، لیکن چھ ماہ بعد ہی جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا حسین احمد مدنی کو فون کیا کہ مجھے واپس بلا لیجے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر ہوا کیا؟ تو قاری طیب صاحب کا جواب تھا کہ پاکستان میں تو صرف دنیا ہی دنیا ہے، دین تو میں بھارت میں ہی چھوڑ آیا۔  طحہٰ نسیم کہتے ہیں،''میرا بھی تاثر یہی ہے۔‘‘

متعدد کتابوں کے مصنف اور صحافی طحہٰ نسیم کے خیال میں یہ درست ہے کہ آج بھارت کے حالات اطمینان بخش نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے سامنے کئی طرح کے مسائل اور مشکلات ہیں لیکن یہ ملت بہت سارے امتحانات سے گزری ہے۔ ان کے بقول یوں بھی بھارت کے سماجی تانے بانے کو توڑنا آسان نہیں ہے اور ہر اندھیری رات کے بعد صبح تو ضرور آتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں