1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک وطن کے عالمی معاہدے کے مخالف ممالک پر جرمن وزیر کی تنقید

8 دسمبر 2018

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ترک وطن کے ایک مجوزہ لیکن متنازعہ عالمی معاہدے کے مخالف ممالک پر شدید تنقید کی ہے۔ اقوام متحدہ کے اس عالمی معاہدے کی تقریباﹰ یقینی طور پر عالمی برادری اگلے ہفتے مراکش میں توثیق کر دے گی۔

https://p.dw.com/p/39k0P
تصویر: imago/C. Ohde

وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے ہفتہ آٹھ دسمبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس نئے عالمی معاہدے کی مراکش کے اسی نام کے شہر مراکش میں آئندہ ہفتے ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس میں توثیق تقریباﹰ یقینی ہے اور اس سلسلے میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ان ممالک پر سخت تنقید کی ہے، جو اب تک اس معاہدے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

اس نئے معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد عالمی ادارے کے رکن ممالک کے لیے لازمی تو نہیں ہو گا لیکن یہ اس وجہ سے دنیا میں اپنی نوعیت کی ایک اولین اور تاریخی پیش رفت ہو گا کہ اس کے تحت تارکین وطن کے حقوق کو باقاعدہ تحفظ فراہم کر دیا جائے گا۔

Bundesaussenminister Heiko Maas
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماستصویر: imago/T.Imo

اب تک اس معاہدے کی مخالفت کرنے والے بڑے ممالک میں امریکا اور آسٹریلیا سرفہرست ہیں، جن کو خدشہ ہے کہ اس معاہدے کی اگر ایک بار عالمی سطح پر توثیق کر دی گئی، تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے لیے بھی اس پر عمل درآمد قانوناﹰ لازمی ہو جائے گا۔

اس معاہدے کو بین الاقوامی سطح پر متنازعہ اس وجہ سے بھی کہا جانے لگا ہے کہ کئی یورپی ممالک بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں، جن میں سے متعدد یورپی یونین کے رکن بھی ہیں۔

اس سلسلے میں کئی یورپی حکومتوں میں داخلی اختلافات بھی اب تک کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے یورپی یونین کے رکن ملک سلوواکیہ کے وزیر خارجہ میروسلاو لائچاک نے اس وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ ان کے ملک نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا تھا۔

یہی نہیں اب تک کئی دیگر یورپی ریاستیں بھی، جن میں ہنگری، آسٹریا، اٹلی، بلغاریہ، کروشیا، چیک جمہوریہ، پولینڈ اور سوئٹزرلینڈ بھی شامل ہیں، اس نئے عالمی معاہدے کی کھل کر مخالفت کر چکی ہیں۔

Spanien | NGO "Proactiva Open Arms"
اس مجوزہ عالمی معاہدے کے تحت تارکین وطن کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا جا سکے گاتصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis

اس بارے میں جرمنی کے ہفت روزہ جریدے ڈئر اشپیگل کے ساتھ ایک انٹرویو میں ملکی وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ جو ممالک اس نئے مجوزہ عالمی معاہدے کی مخالفت کر رہے ہیں، ان کا رویہ ان لوگوں کی سوچ کا نتیجہ ہے، جو اس ’معاہدے کے خلاف بری نیت سے ایک دانستہ ڈس انفارمیشن مہم‘ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ہائیکو ماس نے کہا، ’’یہ معاہدہ پہلی مرتبہ عالمی برادری کو یہ موقع فراہم کرے گا کہ بین الاقوامی سطح پر ترک وطن پر کنٹرول، اس کے انتظام اور اس پر قانونی طور پر نظر رکھنے کا ایک باقاعدہ عالمی ڈھانچہ‘ طے پا سکے۔

دوسری طرف جرمن حکومت کو اندرونی طور پر بھی اس کی ان کوششوں کے خلاف مزاحمت کا سامنا ہے کہ ایسا ایک نیا عالمی معاہدہ اب طے پا جانا چاہیے۔ اس بارے میں جرمن پارلیمان کے متعدد ارکان کو یہ شکایت بھی ہے کہ میرکل حکومت نے ملکی پارلیمان کو اس معاہدے کے طے پا جانے کے لیے کی جانے والی کاوشوں سے بہت تاخیر سے آگاہ کیا۔

م م / ع ح / ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں